اپوزیشن جماعتوں نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے حالیہ انتخاب کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کو اس انتخابی عمل کو صرف انتظامی نہیں بلکہ آئینی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ ان کے مطابق جب تک علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور نہیں ہوتا، نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں کیا جا سکتا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے 15 اکتوبر کو علی امین گنڈاپور کو گورنر ہاؤس بلا کر ملاقات کی تھی، لہٰذا اس ملاقات کا انتظار کیا جانا چاہیے تھا۔ مستعفی وزیراعلیٰ کے استعفیٰ کی منظوری کے بعد ہی اسمبلی کا اجلاس بلانا مناسب ہوتا۔
اپوزیشن نے بتایا کہ اس معاملے پر وکلاء کی ٹیم کے ساتھ مشاورت شروع کر دی گئی ہے۔
اس سےقبل حکومتی وفد نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی جس میں خیبرپختونخوا کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
جے یو آئی (ف) کے میڈیا سیل سے ’ایکس‘ پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیاہے کہ ملاقات میں مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزراء احسن اقبال، انجینئر امیر مقام اور اعظم نذیر تارڑ بھی شامل تھے۔ جے یو آئی (ف) کی طرف سے مولانا لطف الرحمٰن، علامہ راشد محمود سومرو، ایم پی اے سجاد خان اور مخدوم آفتاب شاہ نے شرکت کی۔
دونوں فریقین نے اتفاق کیا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں وزیراعلیٰ کا انتخاب ایک غیر آئینی عمل ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں اس انتخاب کو متنازع اور غیر قانونی سمجھتی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ امید ہے کہ چیف جسٹس اور پشاور ہائی کورٹ اس معاملے میں غیر جانبدار رہیں گے اور آئینی تقاضوں کے مطابق صورتحال کا جائزہ لیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کے لیے وکلا کی ٹیم تشکیل دے رہی ہیں تاکہ وزیراعلیٰ کے انتخابی عمل کو چیلنج کیا جا سکے۔





