گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو مل کر چلنے کی پیشکش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ صوبے میں نہ گورنر راج چاہتے ہیں، نہ ایمرجنسی کا نفاذ۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لیے سیاسی قائدین کو تعاون اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
گورنر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ناگزیر ہو چکے ہیں، جو ہر صورت جاری رہیں گے۔ انہوں نے کہا’’جو عناصر آئین اور قانون کو نہیں مانتے، ان کے خلاف کارروائی لازم ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ حالات بھی خراب ہوں اور آپریشن بھی نہ کیا جائے۔‘‘
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی حلف برداری کے موقع پر کی گئی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے گورنر کنڈی نے کہا کہ یہ ایک جذباتی تقریر تھی جو صرف پی ٹی آئی کے کارکنوں کو خوش کرنے کے لیے کی گئی، عوامی مفادات کو نظر انداز کیا گیا۔ انہوں نے کہا’’سہیل آفریدی ایک نوجوان ہیں، اس عمر میں جذبات غالب آ جاتے ہیں، مگر اب انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘‘
فیصل کریم کنڈی نے زور دیا کہ وہ کسی طور پر گورنر راج یا ایمرجنسی نہیں چاہتے، بلکہ چاہتے ہیں کہ وفاق اور صوبے کے درمیان روابط بہتر ہوں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ماضی میں وفاق سے مسلسل ٹکراؤ نے صوبے کو نقصان پہنچایا ہے۔
گورنر نے سابق وزیراعلیٰ علی آمین گنڈاپور پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ وفاق سے محاذ آرائی کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ انہوں نے کہا’’جانے والا وزیراعلیٰ خود موجود ہو کر نئی قیادت کو وزارت اعلیٰ منتقل کرتا ہے، علی آمین کو تقریب حلف برداری میں ہونا چاہیے تھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کو وفاق سے لڑائی کے بجائے این ایف سی ایوارڈ اور مالی بقایاجات پر بات کرنی چاہیے تاکہ عوام کے حقیقی مسائل حل ہو سکیں۔ گورنر نے خبردار کیا کہ خیبرپختونخوا کے عوام مزید لانگ مارچز اور اسلام آباد کی طرف یلغار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
بات چیت کے اختتام پر گورنر نے پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کا نام لیے بغیر کہا کہ احتجاج اور دھرنوں سے آزادی ممکن نہیں،’’آزادی کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنا ہوگا، سڑکوں پر نکلنے سے صرف افراتفری پھیلتی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں گورنر نے کہا کہ موجودہ سیاسی منظرنامے میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ انہوں نے کہا’’اگر پی ٹی آئی اپنا اپوزیشن لیڈر محمود خان اچکزئی کو بنا سکتی ہے تو پھر آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘





