ایبٹ آباد: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر مولانا حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ ان کی جماعت دو ریاستی حل کے بجائے آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے امت مسلمہ کو علماء کے فتوے کے مطابق کردار ادا کرنا ہوگا، اور عالمی برادری کو اس سنگین انسانی بحران کے حل کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
پریس کلب ایبٹ آباد میں منعقدہ ایک عظیم الشان اسرائیل مردہ باد کانفرنس کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا حافظ حمد اللہ نے کہا کہ غزہ میں ڈیڑھ سال کے دوران 60 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کر پا رہے ہیں۔
مولانا حافظ حمد اللہ نے کہا، ہم بلوچستان، خیبر پختونخواہ یا افغانستان میں آپریشن کے حامی نہیں ہیں، بلکہ مسئلہ کا حل صرف مذاکرات میں ہے۔ گولی بارود سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ ایک بوسیدہ ادارہ بن چکا ہے جو صرف طاقتور ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو آئی سی یو میں علاج کی ضرورت ہے تاکہ وہ فعال ہو سکے۔
انہوں نے اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جو کچھ غزہ اور اس کے اپنے علاقے میں کر رہا ہے، وہ کسی بھی طرح انسانیت کے مطابق نہیں۔ یہ نسل کشی ہے، اور اسرائیل عالمی مجرم ہے۔ اس کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا مقدمہ چلنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں پی ٹی آئی قیادت کو چاہیے کہ وہ گنڈاپور کو لگام دیں، حافظ حمد اللہ
مولانا حافظ حمد اللہ نے مزید کہا کہ اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے دنیا کے مسلمانوں کو جہاد کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو کسی دوسرے سے خطرہ نہیں ہے، بلکہ مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
جے یو آئی کے مرکزی رہنما نے اس موقع پر کہا کہ ان کی جماعت ہمیشہ جہاں بھی ظلم ہوگا، اس کے خلاف آواز اٹھائے گی، اور ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی و بدامنی کا حل مذاکرات میں ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو افغانستان سے بھی مذاکرات ہونے چاہیے۔