5 سے 7 ادارے بیچ دینگے ، پاکستان کی قرضے کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کو یقین دہانی

اضافی ٹیکس اقدامات، این ایف سی ایوارڈ پر آئی ایم ایف کا فوکس

اسلام آباد: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے آئندہ بجٹ میں اضافی ٹیکس اقدامات اور این ایف سی ایوارڈ کے تحت مالی وسائل کی تقسیم میں توازن پر توجہ مرکوز کر دی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے تنخواہ دار طبقے اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ریلیف دینے کے لیے تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس میں چھوٹ کی حد 6 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ کرنے اور نئی ٹیکس سلیب میں 10، 25، 33 اور 35 فیصد شرح مقرر کرنے کی تجویز دی ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ ان تجاویز سے محصولات پر منفی اثر پڑے گا۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ میں کمی سے متعلق ایف بی آر کی کارکردگی پر بھی آئی ایم ایف نے سوالات اٹھائے ہیں۔

آئی ایم ایف حکام نے پاکستانی ٹیم پر زور دیا ہے کہ وہ زمینی حقائق کی بنیاد پر دلائل دیں اور لیفر کرو ٹیکس تھیوری پر حد سے زیادہ انحصار نہ کریں، بلکہ ماہرین کی رائے کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

بجٹ کی منظوری کے لیے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سبکدوش ہونے والے آئی ایم ایف مشن چیف ناتھن پورٹر کے درمیان ہونے والے اہم اجلاس میں آئی ایم ایف نے اپنی توجہ چار بنیادی شعبوں تک محدود رکھی:

1. 14.3 ٹریلین روپے کے محصولات کا ہدف حاصل کرنے کے اقدامات
2. این ایف سی ایوارڈ کے تحت مالی وسائل کی تقسیم میں توازن
3. سرکاری اخراجات میں کمی اور ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے بچت
4. آئندہ مالی سال کے لیے نجکاری ایجنڈہ

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو نمایاں ریلیف دینے کی مالی گنجائش محدود ہے، جبکہ پیکٹ والے دودھ پر سیلز ٹیکس میں ممکنہ کمی پر بھی بات چیت جاری ہے، تاہم اس پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔

آئندہ بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے توازن قائم کرنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے، جہاں ایک طرف ریونیو بڑھانے کا دباؤ ہے، وہیں عوامی حلقوں کو ریلیف دینے کا تقاضا بھی بڑھ رہا ہے۔

Scroll to Top