اسرائیل کے ایران پر فضائی حملوں میں جوہری سائنس دانوں، فوجی کمانڈرز اور عام شہریوں سمیت متعدد افراد شہید ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیلی حملوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
ایران نے بھرپور جوابی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے جنگ کا آغاز ہم نے نہیں کیا لیکن اختتام ہم کریں گے۔
خطے میں کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور دنیا بھر کی نظریں مشرق وسطیٰ پر جمی ہوئی ہیں، یہ سوال شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ آیا ہم ایک ممکنہ عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں؟
ایران پر اسرائیلی حملوں سے متعلق 10 اہم ترین سوالات ابھرتے جا رہے ہیں جن کے جوابات جاننا عوام، ماہرین اور عالمی رہنماؤں کے لیے یکساں اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
(1) کیا حملے میں رہائشی علاقوں اور شہری مقامات کو نشانہ بنایا گیا؟
جی ہاں، رپورٹس اور تصاویر سے تصدیق ہوئی ہے کہ تہران میں کئی رہائشی اپارٹمنٹس اور غیر فوجی عمارتیں نشانہ بنی ہیں۔
(2) کیا ان حملوں میں عام شہری ہلاک یا زخمی ہوئے؟
جی ہاں، درجنوں عام شہری شہید اور زخمی ہوئے، متاثرین میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
(3) حملے میں کون سے ایرانی جوہری سائنسدان شہید ہوئے؟
حملے میں 6 جوہری سائنس دان شہید ہوئے جن میں عبد الحمید منوچہر، احمدرضا ذوالفقاری، سید امیرحسین فقیهی، مطلبیزاده، محمد مهدی طهرانچی اور فریدون عباسی شامل ہیں۔
(4) کیا امریکا کو اسرائیل کے حملے کا پہلے سے علم تھا؟
جی ہاں، سابق امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اس حملے سے باخبر تھا۔
(5) کیا امریکا نے اس حملے میں مدد فراہم کی؟
اگرچہ امریکا نے اسرائیل سے تعاون کی تصدیق نہیں کی لیکن حملے سے 24 گھنٹے قبل ایرانی حدود کے قریب امریکی ایندھن بردار طیاروں کی موجودگی اس میں ممکنہ امریکی معاونت کا اشارہ ہے۔
(6) ایرانی فوج کے کون سے سینیئر کمانڈر شہید ہوئے؟
اب تک ایران نے جن اعلیٰ فوجی افسران کی شہادت کی تصدیق کی ہے ان میں چیف آف آرمی اسٹاف میجر جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی اور میجر جنرل غلامعلی رشید شامل ہیں۔
(7) کیا ایران اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے؟
جی ہاں، ایران کے سپریم لیڈر نے خبر دار کیا ہے کہ صہیونی حکومت کو سخت سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے، اس جرم کے ذریعے صہیونی حکومت نے اپنا تلخ انجام خود لکھ دیا ہے اور وہ اس کی قیمت چکائے گی۔
(8) حملے کا ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات پر کیا اثر پڑے گا؟
حملے کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی اپیل کی تاہم ایران کی جانب سے تاحال اس پر باضابطہ ردعمل نہیں آیا، امکان ہے کہ یہ حملہ چھٹے دور کے مذاکرات کو متاثر کرے گا یا انھیں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دے گا۔
(9) اسرائیل نے اس حملے میں کون سے ہتھیار استعمال کیے؟
رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے حملے F-35 سٹیلتھ لڑاکا طیاروں سے کیے، بعض غیر مصدقہ اطلاعات میں ڈرون حملوں کی بھی بات کی جا رہی ہے جو ممکنہ طور پر درست نشانے کے لیے استعمال کیے گئے۔
(10) ایران کے کن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا؟
تصدیق شدہ حملوں میں تہران، تبریز، اصفہان، ہمدان، اہواز، خرمآباد، کرمانشاہ، اور قصر شیرین شامل ہیں۔
یہ واقعہ نہ صرف ایران بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایک سنگین اور غیر یقینی صورتحال کو جنم دے چکا ہے، خطے میں جنگ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی برادری کی نظریں تہران کے اگلے اقدام پر مرکوز ہیں۔
نوٹ: یہ تمام معلومات ایرانی خبررساں ادارے تہران ٹائمز کی رپورٹ پر مبنی ہیں۔