پشاور ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ،سینئر صحافی محمود جان کا امریکہ کے خلاف 2 کروڑ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ بحال

پشاور ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ،سینئر صحافی محمود جان کا امریکہ کے خلاف 2 کروڑ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ بحال

پشاور ہائی کورٹ نے سینئر صحافی کا امریکہ کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ بحال کر دیاپشاور ہائی کورٹ نے معروف صحافی محمود جان (بابر) کی جانب سے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے خلاف اس کے قونصل خانے (پشاور) کے ذریعے دائر کیے گئے ہرجانے کے دیوانی مقدمے کو بحال کر دیا ہے۔

یہ مقدمہ اس سے قبل پشاور کی ایک ماتحت عدالت نے غیر پیروی کی بنیاد پر خارج کر دیا تھا، تاہم ہائی کورٹ نے اب اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آئینی طور پر دیے گئے ’حقِ سماعت‘ کی بنیاد پر مقدمہ بحال کر دیا ہے۔

جسٹس محمد اعجاز خان کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے ٹرائل کورٹ کے 19 جولائی 2021 کے فیصلے اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج-XV کے 31 مارچ 2022 کے حکم کو کالعدم قرار دیا۔

یہ اپیل اس وقت سامنے آئی جب ابتدائی عدالت نے محمود جان کا مقدمہ غیر حاضری کی بنیاد پر خارج کر دیا۔ مقدمے کے دوران محمود جان کے وکیل معدے کے کینسر کے باعث انتقال کر گئے تھے، جس کی وجہ سے عدالت میں پیشی ممکن نہ ہو سکی۔ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ صرف معمولی تاخیر کی بنیاد پر مقدمہ خارج کرنا، درخواست گزار کے آئینی حق برائے منصفانہ سماعت (آرٹیکل 10-اے، آئینِ پاکستان) کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

جسٹس اعجاز خان نے اپنے فیصلے میں اس امر پر زور دیا کہ عدالتوں کو محض تکنیکی نکات پر انحصار کرنے کے بجائے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ فیصلے میں کہا گیا’’قانونی طریقۂ کار کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی فریق کو یہ موقع ضرور دیا جائے کہ وہ قانونی تقاضوں کے مطابق اپنا مقدمہ ثابت کر سکے۔‘‘

فیصلے میں سپریم کورٹ کے 2022 کے مقدمے وفاقِ پاکستان بذریعہ سیکریٹری خزانہ بمقابلہ دیگر کا حوالہ بھی دیا گیا، جس میں واضح کیا گیا تھا کہ ہر شہری کو قانون کے مطابق برتاؤ کا ناقابلِ تنسیخ حق حاصل ہے۔

ان نکات کی روشنی میں ہائی کورٹ نے محمود جان کا اصل مقدمہ بحال کر دیا اور ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی کہ وہ وہیں سے کارروائی دوبارہ شروع کرے جہاں سے مقدمہ خارج کیا گیا تھا۔ دونوں فریقین کو 23 جون 2025 کو ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پس منظر:
یہ مقدمہ پشاور کے سینئر صحافی محمود جان نے دائر کیا تھا، جنہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں 25 سال سے زائد کا تجربہ حاصل ہے۔ وہ امریکی حکام کی مبینہ جانب سے کی گئی “توہین آمیز، جسمانی و ذہنی اذیت اور مالی نقصان” کے ازالے کے لیے 2 کروڑ امریکی ڈالر ہرجانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ تنازعہ اکتوبر 2020 سے جڑا ہے، جب محمود جان کو استنبول ایئرپورٹ پر نیویارک کے لیے کنیکٹنگ فلائٹ میں سوار ہونے سے روک دیا گیا، حالانکہ ان کے پاس 2016 میں جاری کردہ پانچ سالہ امریکی پروفیشنل ویزہ (ٹائپ-I) موجود تھا۔ وہ امریکی صدارتی انتخابات کی کوریج کے لیے امریکہ جا رہے تھے۔ اسلام آباد میں ان کے سفری دستاویزات اور ویزے کی تصدیق کے بعد انہیں ترکش ایئرلائنز کی پرواز میں سوار ہونے کی اجازت دی گئی، لیکن استنبول میں انہیں “توہین آمیز اور غیر شائستہ انداز’’میں پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔

تحقیقات پر معلوم ہوا کہ ترکش ایئرلائنز کو امریکی سفارتخانے کی جانب سے اطلاع دی گئی تھی کہ ان کا ویزہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں، امریکی سفارتخانے نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا ویزہ امریکی امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کی دفعہ 221(i) کے تحت منسوخ کیا گیا ہے، لیکن کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔ محمود جان کے مطابق، نہ تو انہیں پیشگی اطلاع دی گئی اور نہ ہی واقعے کے دوران یا بعد میں کوئی وضاحت فراہم کی گئی۔

ان کے وکیل فداء گل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ تمام متعلقہ ادارے — بشمول ایئرلائن، امیگریشن حکام اور امریکی سفارتخانہ — اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے، جس کے باعث محمود جان کو بلاوجہ سفر اور عوامی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

بعد ازاں، محمود جان نے وزارتِ خارجہ پاکستان کے ذریعے امریکی سفارتخانے کو ایک نیا قانونی نوٹس بھیجا، جس کے جواب میں سفارتخانے نے افسوس کا اظہار تو کیا، لیکن یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ ویزہ منسوخی کا فیصلہ امریکی محکمۂ خارجہ نے کیا تھا، نہ کہ قونصل خانے نے۔

دوسری جانب، امریکی سفارتخانے نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ انہیں قانونی نوٹس مقررہ طریقہ کار کے مطابق موصول نہیں ہوا، ’’درخواست گزارنے ساٹھ دن کا نوٹس نہیں دیا اور مقدمے کی تفصیلات بھی ناکافی تھیں، جبکہ سمن کی ترسیل بھی درست طریقے سے نہیں ہوئی۔‘‘

علاوہ ازیں، سفارتخانے نے بین الاقوامی روایتی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی خودمختار ریاست کو دوسری ریاست کی عدالت میں پیش ہونے یا جواب داخل کرنے کا پابند نہیں بنایا جا سکتا، جب تک کہ اسے قانونی طور پر نوٹس نہ دیا جائے۔
تاہم ہائی کورٹ نے ان تمام تکنیکی اعتراضات کو شہری کے ’منصفانہ ٹرائل کے حق‘ پر فوقیت نہ دیتے ہوئے مقدمے کو دوبارہ سماعت کے لیے کھول دیا ہے۔

Scroll to Top