عوامی نیشنل پارٹی کے رکنِ اسمبلی نثار باز نے کہا کہ 2018 میں قبائلی اضلاع کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے آج تک نہ وفاقی حکومت نے ان علاقوں کو سنجیدگی سے لیا، نہ ہی صوبائی حکومت نے کوئی خاطر خواہ اقدامات کیے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج بھی ان علاقوں میں نہ بنیادی سہولیات ہیں، نہ تعلیمی ادارے، اور نہ ہی بجٹ میں ان کے لیے فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سات قبائلی اضلاع صوبے کا حصہ ہیں مگر ان میں کسی ایک ضلع میں بھی یونیورسٹی موجود نہیں۔
نثار باز نے باجوڑ کی مثال دیتے ہوئے کہا،17 لاکھ آبادی والے باجوڑ میں آج تک کوئی یونیورسٹی قائم نہیں ہو سکی، جبکہ یہاں سے 16 فیصد معدنیات نکالی جا رہی ہیں مگر بجلی جیسی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں۔
انہوں نے پانی کی قلت پر بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ “زیادہ تر علاقہ بارانی ہے، مگر پانی کا بحران شدید ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے قبائلی اضلاع کے لیے 68 ارب روپے مختص کیے، مگر “زمین پر اس رقم کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا، کرپشن کے سوا کچھ نہیں ہوا۔”
وفاقی ٹیکس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے نثار باز نے کہا، “قبائلی علاقوں پر ٹیکسز لگانا افسوسناک ہے، جہاں بارود کے سوا کچھ نہیں، وہاں کون سی معیشت اور کون سی صنعت پر ٹیکس لگ رہا ہے؟”
انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاق فوری طور پر خیبرپختونخوا کے بقایا جات ادا کرے تاکہ قبائلی عوام کی احساسِ محرومی دور ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ “ابھی بھی دہشت گردی عروج پر ہے، پولیس اہلکار بغیر وسائل کے لڑ رہے ہیں، اور ڈی ایچ کیو باجوڑ میں 58 پوسٹس خالی پڑی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں :این جی اوز کیلیے ٹیکس کی چھوٹ ختم
“نثار باز نے بجٹ میں قبائلی اضلاع کو نظرانداز کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ علاقے پہلے دہشتگردی سے تباہ ہوئے، اب حکومتی غفلت کے شکار ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری کے باعث باجوڑ کے نوجوان ملک سے باہر محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔”