پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صوبائی صدر جنید اکبر کی صدارت میں اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں قبائلی اضلاع سے فوج نکالنے اور پولیس ایکٹ 2017 کے تحت پولیس کے اختیارات بحال کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
اجلاس میں خرم ذیشان، سیکرٹری اطلاعات عدیل اقبال، شفقت آیاز، عرفان سلیم اور دیگر اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ بتایا گیا ہے کہ اجلاس کا اصل مقصد 5 اگست کے احتجاج کی تیاری تھی، تاہم اسی اجلاس میں فوج کی واپسی اور پولیس کو بااختیار بنانے کی قرارداد بھی منظور کی گئی۔
سینئر صحافی اور پختون ڈیجیٹل کے بیورو چیف کاشف الدین سید کا کہنا ہے کہ حالیہ ریاستی تشدد کے واقعات کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ تحریک انصاف کی پالیسی ہے اور کیا صوبائی حکومت اس سے اتفاق کرتی ہے؟
کچھ دن پہلے صوبائی حکومت کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں اہم سیاسی جماعتوں کی عدم شرکت کے بعد وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے ریاستی اداروں اور فوج پر سخت الزامات عائد کیے اور کہا کہ گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور ان کے کارکنوں کو آئی ایس آئی اور ایم آئی سے چھڑایا جا رہا ہے۔
کاشف الدین سید نے اس حوالے سے سوال کیا کہ کیا تحریک انصاف کی منظور شدہ قرارداد اور وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں یا یہ علیحدہ معاملات ہیں؟ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو واضح موقف دینا ہوگا کہ وہ اس قرارداد سے متفق ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں : فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے، پاکستان کا عالمی کانفرنس میں مطالبہ
کاشف الدین سید نے یاد دلایا کہ قبائلی اضلاع میں فوج کو پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے دور میں بلایا گیا تھا۔ اگر فوج کو واپس بلایا جاتا ہے تو امن و امان کی ذمہ داری پولیس پر آئے گی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا خیبر پختونخوا پولیس، خصوصاً قبائلی اضلاع میں تعینات پولیس اہلکار، جو زیادہ تر خاصہ دار اور لیوی فورس سے آئے ہیں، دہشت گردی کے خلاف مؤثر مقابلہ کرنے کے قابل ہیں؟ کیا ان کے پاس اس کے لیے ضروری تربیت، ہتھیار اور ساز و سامان موجود ہے؟
ان کے مطابق قبائلی اضلاع میں تعینات پولیس کی تعداد تقریباً 25 سے 26 ہزار کے درمیان ہے، لیکن کیا یہ تعداد اور وسائل اس اہم ذمہ داری کے لیے کافی ہیں؟





