برطانیہ میں افغان مہاجرین کا حساس ڈیٹا لیک ہونے کا سنگین انکشاف سامنے آیا ہے، جس کے بعد برطانوی وزارتِ دفاع کی کارکردگی اور ڈیٹا سکیورٹی پر سخت سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق انفارمیشن کمشنر آفس (ICO) کی حالیہ دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2022 میں افغان شہریوں کے ڈیٹا لیک ہونے کے وقت وزارتِ دفاع ممکنہ خطرات سے آگاہ تھی۔ رپورٹ کے مطابق وزارتِ دفاع نے پہلے ہی اپنے عملے کو خفیہ معلومات شیئر نہ کرنے کی ہدایت کی تھی، تاہم اس کے باوجود حساس ڈیٹا افشا ہو گیا۔
آئی سی او رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزارت دفاع نے ڈیٹا سیٹس سے خفیہ ٹیگز ہٹانے کی ضرورت کو تسلیم کیا تھا، مگر مناسب حفاظتی اقدامات نہ اٹھانے پر کمشنر آفس کے بعض اہلکاروں نے وزارتِ دفاع کو جرمانہ نہ کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ برطانیہ منتقلی کے خواہشمند 19 ہزار افغان شہریوں کا ڈیٹا 2022 میں لیک ہوا تھا۔ اس واقعے سے متعلق سرکاری دستاویزات گزشتہ ماہ منظر عام پر آئی تھیں۔ حال ہی میں ایک اور واقعہ میں 3,700 افغان شہریوں کے نام، پاسپورٹ نمبرز اور دیگر اہم کوائف بھی افشا ہو چکے ہیں۔
متاثرہ افراد ان افغان شہریوں میں شامل ہیں جو 2022 کے ڈیٹا لیک کے بعد برطانیہ میں ری سیٹلمنٹ اسکیم کے تحت آباد کیے گئے تھے۔
یہ سنگین واقعہ نہ صرف ان افغان شہریوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے بلکہ برطانیہ کے امیگریشن اور سیکیورٹی نظام پر بھی سنجیدہ سوالات کھڑے کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت سے واقعے کی شفاف تحقیقات اور متاثرہ افراد کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔