مسلم لیگ (ن) سوات کے رہنما اور سابق ضلع نائب ناظم ملک صدیق احمد نے الزام عائد کیا ہے کہ انتظامیہ نے ان کی 90 کروڑ روپے مالیت کی قانونی اور انتقالی ہوٹلز و عمارتیں مسمار کر دیں جبکہ اثر و رسوخ رکھنے والوں کی عمارتوں کو دانستہ نظر انداز کیا گیا۔
سنگوٹہ میں اپنی رہائش گاہ پر پرجوش پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک صدیق احمد نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ مسلم لیگ ن اور وفاقی وزیر امیر مقام کا ساتھ دیا لیکن جب ہماری جائیدادیں بچانے کا وقت آیا تو وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ صوبائی وزیر فضل حکیم نے وزیراعلیٰ کے ساتھ بیٹھ کر ان کی جائیدادوں کو نشانہ بنانے میں کردار ادا کیا، انہوں نے کہا کہ کالام سے لنڈاکے تک بااثر افراد کی عمارتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جبکہ کمزور طبقے کے ہوٹلوں اور عمارتوں کو مسمار کر کے نہ صرف ان کے کاروبار تباہ کیے گئے بلکہ سیاحت کی صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔
ملک صدیق کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1995 میں موروثی زمین پر ہوٹلز تعمیر کیے اور اس وقت کی ٹی ایم اے سے باقاعدہ منظوری حاصل کی گئی تھی، اگر یہ عمارتیں غیر قانونی تھیں تو انہیں بجلی، پانی اور گیس کے کنکشن کیوں دیے گئے؟
انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات اور نشاندہی کے باوجود اے ڈی سی اور اے سی نے انہی ہوٹلوں کو گرانے کا حکم دیا، احتجاج کرنے والے مظاہرین پر گولیاں اور آنسو گیس کے شیل برسائے گئے۔
ملک صدیق احمد نے سوات کے ایم پی ایز اور وفاقی وزیر امیر مقام کو اس کارروائی کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے جیت چکے ہیں لیکن انتظامیہ نے عدالتی احکامات کو یکسر نظر انداز کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بحرین، دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن، سرکاری اراضی واگزار
پریس کانفرنس کے دوران سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی زاہد خان نے بھی سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کے باعث ہوٹلز انڈسٹری کو 9.5 ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے، اگر یہی رویہ جاری رہا تو ہم تمام ہوٹلز بند کر دیں گے اور سیاحوں کو سوات نہ آنے کی اپیل کریں گے۔