عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ وفاقی سطح پر سیلاب متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز مختص نہ کیے جائیں۔ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ ان اسکیموں کو متعلقہ صوبے اپنے وسائل سے فنڈ کریں تاکہ بجٹ سرپلس متاثر نہ ہو۔
قومی اخبار (روزنامہ نوائے وقت ویب سائٹ)کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف مشن کے درمیان جاری اقتصادی جائزہ مذاکرات میں آج کا دن اہم قرار دیا جا رہا ہے، جس میں وزارت خزانہ اور وزارت توانائی کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال متوقع ہے۔
ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف مشن کو ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ مائن پروجیکٹ پر بھی بریفنگ دی گئی، جس کی لاگت ابتدائی تخمینے 4.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 7.72 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں سالانہ 2 لاکھ میٹرک ٹن کاپر کی پیداوار متوقع ہے۔
آج کے اجلاس میں حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات، معیشت پر اثرات، ٹیکس اہداف اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی پر بھی تفصیلی گفتگو ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ اہداف پر نظر ثانی اور متاثرہ علاقوں کی اسکیموں کے لیے متبادل حکمت عملی پر مشاورت جاری ہے۔
مذاکرات میں وزارت توانائی کے ساتھ بجلی کے شعبے میں اصلاحات، لائن لاسز، بلوں کی وصولی اور ڈسکوز (بجلی تقسیم کار کمپنیوں) کی نجکاری کے لیے ٹائم فریم پر بھی گفتگو کی جائے گی
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو فنڈز کی منتقلی، اور نئی نیشنل ٹیرف پالیسی 2025-30 پر بھی بریفنگ دی جائے گی، جس میں درآمدی ڈیوٹیز میں بتدریج کمی کے ذریعے برآمدات اور سرمایہ کاری کے فروغ پر زور دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق، وزیراعظم آفس بھی آئی ایم ایف سے اگلی قسط کے اجراء کے لیے متحرک ہو گیا ہے۔ مختلف وزارتوں اور محکموں سے رابطہ کر کے مطالبات پر عملدرآمد کی رپورٹس طلب کی گئی ہیں۔وزیراعظم آفس کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ آئی ایم ایف کو مکمل رپورٹ دی جائے، اور جن نکات پر عمل نہیں ہو سکا، ان کی جامع وجوہات بھی فراہم کی جائیں۔
اقتصادی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے قسط جاری کرنے کی سفارش کی جا سکتی ہے، تاہم اس کے لیے تمام شرائط پر عملدرآمد اور شفاف رپورٹنگ کو یقینی بنانا ہو گا۔





