پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا کے 24 سرکاری ہسپتالوں کو ٹھیکے پر دینے کے حکومتی فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی ہے۔
یہ رٹ معروف قانون دان عباس خان سنگین ایڈوکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام غریب عوام کے لیے سرکاری ہسپتالوں کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔
رٹ میں کہا گیا ہے کہ صحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرے۔
درخواست میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 38(D) کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ یہ شق ہر شہری کو مفت صحت سہولیات کی ضمانت دیتی ہے۔
رٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہسپتالوں کو ٹھیکے پر لینے والا ٹھیکیدار ممکنہ طور پر چیک اپ فیس، پرچی، اور دیگر خدمات کی قیمتوں میں اضافہ کرے گا۔
درخواست میں عدالت سے استدعاکی گئی ہے کہ وہ حکومت کو فوری طور پر نجکاری سے روکیں ۔
یہ بھی پڑھیں : پشاور ہائیکورٹ نے 28 سرکاری اسکولوں کی نجکاری روک دی
پشاور ہائیکورٹ نے ضلع بونیر کے 28 سرکاری پرائمری اسکولوں کی نجکاری کا عمل روک دیا ہے۔
ضلع بونیر کے 28 اسکولوں کی نجکاری کے خلاف دائر درخواست پر عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 دن کے اندر تفصیلی جواب طلب کر لیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل اختر الیاس کے مطابق، یہ 28 اسکول تحصیل مندنڑ اور تحصیل خدوخیل میں واقع ہیں، جن میں 10 لڑکوں کے اور 18 لڑکیوں کے پرائمری اسکول شامل ہیں۔
وکیل نے بتایا کہ گیارہ اگست کو صوبائی حکومت نے نجکاری سے متعلق ایک اعلامیہ جاری کیا تھاجس کی بنیاد پر یہ اسکول آؤٹ سورس کیے جا رہے ہیں۔
اختر الیاس نےکہا کہ یہ اقدام آئین کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اسکولوں کے معیار کو بہتر کرنے کے بجائے انہیں نجکاری کے عمل میں شامل کر رہی ہے۔
وکیل نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس نجکاری کی وجہ سے علاقے کے ہزاروں بچے مفت تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔
عدالت نے درخواست گزار کی اپیل پر نجکاری کا عمل روکتے ہوئے فریقین سے 14دن کے اندر تفصیلی جواب طلب کرلیا ہے۔





