پشاور ہائی کورٹ نے محکمہ وائلڈ لائف اور محکمہ لائیو اسٹاک کو صوبے بھر کے تمام چڑیا گھروں اور وائلڈ لائف پارکس کی گزشتہ پانچ سال کی آڈٹ رپورٹس جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے دونوں محکموں کو 17 نومبر تک رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
یہ احکامات پشاور چڑیا گھر میں جانوروں کو درپیش مسائل اور سہولیات کی فراہمی سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے دوران جاری کیے گئے۔ عدالت نے گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کر دیا۔
تحریری حکم نامے کے مطابق محکمہ وائلڈ لائف اور محکمہ لائیو اسٹاک سے گزشتہ پانچ سال کے دوران چڑیا گھروں اور وائلڈ لائف پارکس کے لیے جاری اور خرچ کیے گئے فنڈز کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ جانوروں کی خوراک پر فنڈز کے استعمال کی مکمل رپورٹ بھی جمع کرائی جائے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ محکمہ لائیو اسٹاک جانوروں کے علاج معالجے سے متعلق رپورٹ پیش کرے جبکہ گھروں میں شہریوں کی جانب سے رکھے گئے پالتو جانوروں کے حوالے سے بھی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
عدالت نے یہ بھی استفسار کیا ہے کہ چڑیا گھروں میں پہلے سے تعمیر شدہ پارکس استعمال میں کیوں نہیں لائے جا رہے۔ اس معاملے پر بھی فریقین سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ عدالت نے تمام رپورٹس 17 نومبر تک پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں :شمشان گھاٹ کیس! اب تو کابینہ بھی نہیں ہے کیسے منظوری ملے گی؟ پشاور ہائیکورٹ
پشاور ہائیکورٹ میں شمشان گھاٹ کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ اب تو کابینہ بھی موجود نہیں، منظوری کیسے ملے گی؟
دو رکنی بینچ جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس وقار احمد نے شمشان گھاٹ کے لیے زمین کی فراہمی سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل تیمور خان نے عدالت کو بتایا کہ خیشگی بالا میں شمشان گھاٹ کے لیے زمین کی نشاندہی کی گئی ہے، جو محکمہ سیاحت کی ملکیت ہے، اور وہاں میت لے جانے کے لیے بس کی فراہمی کی بھی درخواست دی گئی ہے۔
عدالتی ریمارکس پر اقلیتی رکن اسمبلی بابا گرپال سنگھ نے جواب دیا کہ وہ اپوزیشن کی اقلیتی نشست پر ممبر اسمبلی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں چونکہ کابینہ موجود نہیں، اس لیے فوری طور پر کوئی حتمی تاریخ دینا ممکن نہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے جامع رپورٹ طلب کر لی۔





