پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترکیہ میں منعقدہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے ’استنبول مذاکرات ‘ کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئے ہیں۔ قطری اور ترک ثالثین کی زیرِ نگرانی ہونے والے یہ مذاکرات سفارتی ناکامی کی وجہ سے نہیں بلکہ افغان حکومت کے اندرونی اختلافات، اقتدار کی رسہ کشی، ہٹ دھرمی اور خفیہ ہاتھ (بھارت) کے ملوث ہونے کے باعث تعطل کا شکار ہوئے۔
قابلِ اعتماد پاکستانی ذرائع کے مطابق افغان وفد الجھاؤ کا شکار رہا ہے، غیرمنظم اور دہشتگرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کے حوالے سے مکمل غیر سنجیدہ دکھائی دیا۔ ابتدائی مذاکرات سے ہی واضح ہو گیا تھا کہ افغان وفد ایک متحد آواز کے ساتھ بات نہیں کر رہی۔ وفد کو 3 مختلف طاقت کے مراک، ’قندھار‘، ’کابل‘ اور ’خوست‘ سے متضاد ہدایات موصول ہو رہی تھیں۔
فیصلہ کن موڑ، کابل دھڑے نے مسودے پر دستخط روکے
مذاکرات اُس وقت آگے بڑھے جب پاکستان نے افغان سرزمین پر ’ٹی ٹی پی‘ کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے سے متعلق ’تحریری ضمانت‘ کا مطالبہ کیا۔ ذرائع کے مطابق ’قندھار گروپ‘ نے خاموشی سے اس مطالبے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی مگر دورانِ وقفہ ’کابل گروپ‘ نے اچانک نئی شرائط کے ساتھ ایک اور مطالبہ پیش کر دیا
’جب تک امریکا باقاعدہ ضامن کے طور پر شامل نہیں ہوتا، کوئی معاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔‘
مذکرات کے دوران طالبان وفد نے نئی شرائط عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک امریکا باقاعدہ ضامن کے طور پر شامل نہیں ہوتا، کوئی معاہدہ نہیں کیا جا سکتا، یہ مطالبہ پہلے کسی اجلاس میں زیرِ بحث نہیں آیا تھا، اس لیے ثالثوں کے لیے حیران کن ثابت ہوا۔ ماہرین کے مطابق یہ قدم دراصل ایک ’دو طرفہ سیکیورٹی بات چیت‘ کو ’امداد سے جڑے سہ فریقی مالی معاہدے‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش تھی تاکہ واشنگٹن کے ذریعے مالی راستے دوبارہ کھولے جا سکیں۔
بند دروازوں کے پیچھے انتشار
مذاکرات کے دوران افغان وفد میں افراتفری کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ ایک رکن ہاتھ سے لکھے پرچوں پر باہر بیٹھے کسی ہدایت کار سے ہدایات لیتا رہا جبکہ دوسرا بار بار کمرہ چھوڑ کر کابل میں کسی سے فون پر بات کرتا رہا۔
ہر فون کال کے بعد، طے شدہ شقیں دوبارہ پیش کی جاتی رہیں، پہلے سے منظور شدہ نکات کو ’زیرِ غور‘ قرار دے دیا گیا اور بات چیت کا عمل دانستہ طور پر سست کر دیا گیا۔
بھارت کی شمولیت کے لیے حیلے بہانے
یہ واضح ہو گیا کہ افغان وفد کا مقصد پیش رفت نہیں بلکہ مذاکرات کو اس وقت تک روک کر رکھنا تھا جب تک کہ ’بیرونی عناصر‘، خصوصاً ’بھارت‘، کو اس عمل میں شامل نہ کر لیا جائے۔
امریکا کو شامل کرنے کی کوشش اصل مقصد مالی فائدہ
ذرائع کے مطابق ’امریکی ضامن‘ کی تجویز خودمختاری کے لیے نہیں بلکہ ’مالی فوائد کے لیے ‘ ایک حربے کے طور پر رکھی گئی، اگر امریکا شامل ہو جائے تو طالبان ’تعاون‘ کا تاثر دے سکتے ہیں،۔ تعاون شروع ہونے پر ’معاشی امداد‘ کے دروازے کھل سکتے ہیں اور مالی امداد شروع ہوتے ہی داخلی دباؤ میں کمی آ سکتی ہے‘۔ یوں طالبان ’ٹی ٹی پی‘ کے وجود کو ختم کرنے کے بجائے اسے ’مالی مفاد‘ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ثالثین کا تجزیہ
قطری اور ترک ثالثین نے نجی طور پر 3 اہم نکات تسلیم کیے ان میں نمبر ایک ’پاکستان کے مطالبات جائز اور بین الاقوامی اصولوں کے عین مطابق ہیں۔‘ دوسرا ’افغان فریق کی رکاوٹ مواد میں نہیں بلکہ اندرونی غیر یقینی صورتحال میں ہے۔‘ تیسرا ’کابل دھڑا اس معاملے کو واشنگٹن کی طرف کھینچ کر دباؤ کے ذریعے مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘
طویل مذاکرات اور آخری لمحات میں پسپائی
استنبول میں مذاکرات 3 دن تک جاری رہے، جن میں پہلا اجلاس 19 گھنٹے، دوسرا 11 گھنٹے اور تیسرا 18 گھنٹے تک جاری رہا، اس دوران پاکستانی وفد نے ’دہشتگرد ٹھکانوں‘ اور ’سرحد پار نقل و حرکت‘ کے اوقات اور مقامات کے ساتھ ثبوت پیش کیے، مگر افغان وفد نے ان شواہد کا جواب دینے کے بجائے ’قانونی موشگافیوں‘ اور ’بار بار کابل سے رابطوں‘ کے ذریعے مذاکراتی عمل کو کمزور کیا۔
ایک پاکستانی نمائندے نے بتایاکہ ’افغان وفد نے عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات پر اتفاق سے گریز کیا۔ ان کے غیر واضح وعدوں اور ذمہ داری قبول نہ کرنے کے رویے نے مذاکرات کو نقصان پہنچایا‘۔
ایک غیر معمولی واقعہ رات 27 اور 28 اکتوبر کی درمیانی شب پیش آیا۔ جب مسودہ 3 بار فائنل ہو چکا تو پاکستانی وفد کے سربراہ ’جنرل شہاب اسلم‘ نے افغان فریق سے پوچھا کہ ’اسلام میں 3 بار کہنے یا وعدہ کرنے کے بعد بات حتمی ہوتی ہے، تو کیا آپ کی طرف سے یہ حتمی ہے؟‘ افغان نمائندوں نے جواب دیا: ’ہاں۔‘
تاہم دستخط سے چند لمحے قبل وہ دوبارہ باہر گئے، کابل سے فون پر بات کی اور واپس آ کر اپنے ہی طے شدہ معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس پر ترک اور قطری ثالثوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے اور معاف کرے۔‘
اہم اختلافات فضائی حدود اور باہمی ضمانتیں
جب افغان وفد نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کے حوالے سے ضمانت مانگی تو جنرل شہاب نے یاد دہانی کرائی کہ کسی بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنی سرزمین کو دشمنانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔
پاکستان نے واضح کیا کہ وہ کسی تیسرے ملک کی کارروائیوں پر ضمانت نہیں دے سکتا اور نہ ہی افغانستان سے ہونے والی دہشت گرد سرگرمیوں کی ذمہ داری قبول کر سکتا ہے۔ اسلام آباد نے خبردار کیا کہ اگر سرحد پار حملے جاری رہے تو پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
پاکستان کا مؤقف امن کی خواہش مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں
مذاکرات کے دوران پاکستان نے تحمل مگر دوٹوک انداز میں موقف پیش کیا کہ وہ ’علاقائی امن و استحکام‘ کا خواہاں ہے، لیکن اپنے عوام کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستان کا بنیادی اور اصولی مطالبہ یہی رہا کہ ’افغان طالبان ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی سرپرستی ختم کریں‘ اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔
آئندہ لائحہ عمل
استنبول مذاکرات بالآخر اس لیے ناکام ہوئے کہ افغان فریق نے ’زبانی یقین دہانیوں‘ کو ’عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات‘ میں تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ قطر اور ترکیہ کے ثالثوں نے افغان وفد کے بار بار یوٹرن اور عدم سنجیدگی پر مایوسی کا اظہار کیا۔
پاکستان نے ثالثوں کی درخواست پر بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جو اسلام آباد کے ’اخلاص، استقامت اور تعاون کے جذبے‘ کا واضح ثبوت ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان مذاکرات کی ناکامی اس بنیادی حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ افغان حکومت کے اندرونی اختلافات اور ’دہشتگردی کو سیاسی کرنسی‘ میں بدلنے کی کوشش خطے کے امن کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
جب تک کابل اپنے داخلی اقتدار کی جنگ حل نہیں کرتا اور ’ٹی ٹی پی‘ جیسے گروہوں کو مالی اور سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے باز نہیں آتا، حقیقی پیش رفت ممکن نہیں ہو سکتی۔
مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجوہات
مذاکرات کی ناکامی کی وجہ افغان اندرونی خلفشار تھا، پاکستان کی سفارت کاری نہیں تھی، کابل دھڑا امریکا کو شامل کر کے مالی امداد کے راستے کھولنا چاہتا ہے۔3 بار حتمی معاہدے کے بعد کابل کے حکم پر افغان وفد پیچھے ہٹ گیا۔ پاکستان نے ’ٹی ٹی پی‘ کی سرگرمیوں کے ٹھوس ثبوت پیش کیے۔ ثالثوں نے پاکستان کے مؤقف کو جائز اور افغان رویے کو رکاوٹ قرار دیا۔ کوئی معاہدہ نہ ہو سکا، پاکستان نے اپنے دفاع کے حق اور مستقبل کی بات چیت دونوں کے دروازے کھلے رکھے۔





