سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہےکہ بطور پارٹی سربراہ یہ عمران خان کا استحقاق ہے کہ وہ جسے چاہیں جہاں رکھیں۔
پشاور میں میڈیا کی جانب سے ’آپ کو کیوں نکالا‘ جیسے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے مذکورہ سوال کو ناجائزقرار دیا۔
انہوں نے کہاکہ بات یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی ہے، عمران خان کی ٹیم ہے، اور بطور کپتان عمران خان کی یہ مرضی ہے کہ وہ کس کو کہاں رکھتا ہے۔‘
آپ کو کیوں نکالا؟ علی امین گنڈاپور سے سوال، علی امین نے وجہ بتا دی۔ pic.twitter.com/yUwRHOBM36
— Pakhtun Digital (@PakhtunDigital) October 30, 2025
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ یہ سوال جائز نہیں ہے کیونکہ بطور پارٹی رہنما یہ عمران خان کی صوابدید ہے۔
انہوں نے مذید کہاکہ یہ عمران خان کا استحقاق ہے،وہ ہمیشہ سے کرکٹ میں اور سیاست میں بھی کس کو کہاں رکھنا ہے اور کیا کرنا ہے، اور ہم اس کےساتھ ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں : اگر عمران خان بھی کہہ دیں تودوبارہ وزیراعلی نہیں بنوں گا، علی امین گنڈاپور
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد علی امین گنڈاپور نے اپنے پہلے انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ اب وہ دوبارہ وزیراعلیٰ کا عہدہ قبول نہیں کریں گے چاہے عمران خان ہی کیوں نہ کہیں۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھاکہ وہ ا ب کوئی پارٹی عہدہ نہیں رکھنا چاہتے بلکہ بطور کارکن اپنی زمہ داریاں نبھانا چاہتے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان کا جو بھی فیصلہ ہے ہمیں من و عن قبول ہے اور ہماری پارٹی ہمیشہ کیلئے متحد ہے اور تمام نے خان صاحب کے فیصلے پر اعتماد کا اظہار کیاہے ۔
انہوں نے مذید کہا کہ یہ حکومت چکر بنا رہی ہے اس کیلئے بھی لائحہ عمل بنا لیا ہے،ہم ان کی جو بھی سازش ہوگی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔پختونخوا عمران خان کا گڑھ ہےاور اگرکسی کی یہ سوچ ہے کہ پختونخوا کے اندر کوئی سازش کرکےعمران خان کی حکومت گرا سکیں گے تو ان کو میرا چیلنج ہے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ وہ وزارتِ اعلیٰ سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے جو تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اس حوالے سے وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ صوبے کو مختلف مسائل کا سامنا ہے اور اس قسم کے تاخیری حربوں سے صوبے کو نقصان ہوگا۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ اگر انہیں دوبارہ وزارتِ اعلیٰ کی آفر بھی ہوتی ہے تو وہ قبول نہیں کریں گے، چاہے عمران خان ہی کیوں نہ کہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں لیں گے تاہم پارٹی کارکن کی حیثیت سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔





