سلمان یوسفزئی
افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے وطن واپسی کے باعث خیبر پختونخوا کے افغان مہاجر کیمپوں میں پڑھانے والے 291 پاکستانی اساتذہ بے روزگار ہوگئے ہیں۔
منگل کو پشاور پریس کلب میں بے روزگار ہونے والے اساتذہ کے نمائندوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی رہنما مہر سلطانہ نے اس سنگین صورتحال کے خلاف پریس کانفرنس کی اور صوبائی و وفاقی حکومتوں سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔
پریس کانفرنس میں پاکستانی اساتذہ کرام کی تنظیم کے صوبائی صدر سید محمد شاہ، جنرل سیکرٹری مختیار خان اور نائب صدر فرحانہ گل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان 291 اساتذہ میں اکثریت خواتین کی ہے جبکہ مرد اساتذہ کی تعداد محض 100 ہے جنہیں پہلے باقاعدہ تقرری خطوط کے ذریعے تعینات کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یو این ایچ سی آر بھی انہیں ریلیف یا مستقبل بارے کوئی رہنمائی فراہم نہیں کر رہا۔
نائب صدر فرحانہ گل کا کہنا تھا کہ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا مستقبل تاریک ہوچکا ہے، یہ مسئلہ صرف 291 افراد تک محدود نہیں بلکہ 291 خاندان متاثر ہو چکے ہیں۔
متاثرین کا مطالبہ تھا کہ یا تو انہیں سرکاری محکموں میں شمولیت کے ذریعے نوکریاں دی جائیں یا ان کی تعلیمی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب کمپنسیشن فراہم کی جائے۔
ممبر صوبائی اسمبلی مہر سلطانہ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھائے گی۔ ہم خیبر پختونخوا اسمبلی میں باقاعدہ قرارداد پیش کریں گے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر وفاق سے بھی بات کریں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو عدالتی راستہ بھی اختیار کیا جائے گا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ٹیچرز کو بے روزگار نہیں ہونے دیا جائے گا۔
متاثرہ اساتذہ نے کہا کہ انہوں نے وفاقی و صوبائی وزراء سے رابطے کیے مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ حل یا تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا، اسی وجہ سے انہیں پشاور پریس کلب کا رخ کرنا پڑا۔ اس موقع پر متاثرہ خواتین اساتذہ کی کثیر تعداد نے احتجاج بھی کیا اور صوبائی حکومت سے فوری ریلیف کا مطالبہ کیا۔
متاثرہ اساتذہ کا مزید کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے راستے بند ہونے یا کیمپ بندش کے فیصلے نے تعلیمی سرگرمیوں کو ٹھپ کر دیا جس کے باعث یو این ایچ سی آر کے زیر اہتمام چلنے والے سکولوں میں پڑھانے والے پاکستانی اساتذہ بغیر کسی پیشگی اطلاع یا متبادل کیکے چھوڑ دیے گئے۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر متاثرین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے وعدہ کیا کہ وہ معاملے کو اسمبلی وفاقی سطح اور عدالت تک لے جائیں گے جب تک اساتذہ کے حقوق کے تحفظ اور مستقبل کی ضمانت کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا جائے۔





