آرمی چیف ایک آئینی عہدہ ہے جس کی مدت پانچ سال ہے، وزیر قانون

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وزیر فیلڈ مارشل صرف ایک ٹائٹل ہے جبکہ آرمی چیف ایک آئینی عہدہ ہے جس کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ مارشل آف ایئر فورس اور مارشل آف نیول فورس کے ٹائٹل متعارف کرانے کی بھی تجویز ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ٹائٹلز دینے کا اختیار وزیراعظم کے پاس نہیں ہوگا بلکہ یہ فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، آرمی چیف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے اور فیلڈ مارشل کے رینک اور ٹائٹل کو آئینی تحفظ حاصل ہوگا۔

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ ججز کی تقرری اور تبادلے کے نظام میں بھی اصلاحات تجویز کی گئی ہیں، ججز کے ٹرانسفر کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا جبکہ تبادلے کے عمل میں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو بھی شامل کیا جائے گا اس کے ساتھ ساتھ آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کرنے کی تجویز بھی ترمیمی بل میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات سے متعلق ابہام کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مجوزہ ترامیم کے مطابق ملک بھر میں سینیٹ کے ارکان کا انتخاب ایک ہی وقت میں کرانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ انتخابی عمل میں تاخیر یا تعطل نہ ہو۔

وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ چھوٹے صوبوں کی پارلیمانی نمائندگی بڑھانے پر بھی غور ہو رہا ہے ،11 فیصد سے بڑھا کر 13 فیصد تک کر رہے ہیں، اسی طرح غیر منتخب وزارتی عہدیداروں، مشیروں اور معاونینِ خصوصی کی تعداد میں اضافے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ ترامیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے بعد ہی آئین کا حصہ بنیں گی، بلدیاتی اختیارات سےمتعلق متحدہ قومی موومنٹ کے پیش کردہ آرٹیکل 140-اے بل پر بھی آج اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت ہوگی تاکہ اتفاقِ رائے سے اسے منظور کرایا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: فوج اور عدلیہ کے ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا فیصلہ

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی کی جانب سے بلوچستان میں انتخابی حلقوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ بھی قائمہ کمیٹی میں زیر غور لایا جائے گا۔

وفاقی وزیر قانون مزید کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی مالیاتی کمیشن کے حوالے سے اپنی جماعت کے اندرونی اختلافات کی نشاندہی کی ہے۔

بلاول بھٹو نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ جن ترامیم پر تمام جماعتوں میں اتفاق موجود ہے انہیں پہلے مرحلے میں منظور کر لیا جائے، جبکہ باقی معاملات کو بعد کے لیے مؤخر کیا جائے۔

Scroll to Top