پاراچنار: موسم سرما کی دو ماہ کی تعطیلات کے اختتام کے باوجود پاراچنار میں تعلیمی ادارے ابھی تک بند ہیں، جس سے طلباء اور والدین میں اضطراب بڑھ رہا ہے۔
نصابی کتب کی کمی، اسکول یونیفارم کی عدم دستیابی اور ایندھن کی قلت نے تعلیمی اداروں کے دوبارہ کھلنے کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ یہ صورتحال طلباء کو غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر رہی ہے اور تعلیمی سلسلے میں بڑھتا ہوا خلا تشویش کا باعث بن رہا ہے۔
اسکول مالکان اور پرنسپلز نے طویل بندش پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے، اور خطے میں بدامنی کو 2024 کے تعلیمی وقت کے ضیاع کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ مرجان علی اور محمد حیات خان سمیت دیگر تعلیمی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ 2025 کے تعلیمی سیشن کے آغاز کے باوجود ضروری وسائل کی کمی، جیسے نصابی کتب اور ایندھن، اسکولوں کے دوبارہ کھلنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
تعلیمی رہنماؤں نے حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ آمدورفت کے راستوں کو بحال کیا جا سکے اور نصابی کتب کی بروقت فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اہم سڑکوں کی پانچ ماہ کی بندش نے روزمرہ زندگی کو شدید متاثر کیا ہے اور بلیک مارکیٹ میں ایندھن کی قیمتیں 1,200-1,500 روپے فی لیٹر تک پہنچ چکی ہیں، جس نے طلباء اور اساتذہ کے لیے سفر کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں خیبر پختونخوا میں شدید بارشیں ، دیر میں 61 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی
اسکولوں کے منتظمین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے نقل و حمل کے راستوں کو دوبارہ کھولنے اور وسائل کی کمی کو دور کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا تو تعلیمی ادارے بند رہیں گے اور ممکنہ طور پر بڑے احتجاج کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاراچنار کا تعلیمی معیار پہلے اسلام آباد اور ایبٹ آباد جیسے بڑے شہروں کے برابر تھا، لیکن موجودہ بدامنی اور وسائل کی کمی نے خطے کی تعلیمی ترقی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
طویل بندش نے نہ صرف ہزاروں طلباء کی تعلیم کو متاثر کیا ہے، بلکہ خطے کی مجموعی ترقی کے لیے طویل مدتی خطرات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ والدین اور ماہرین تعلیم نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاراچنار کے نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کریں اور معمولات کو بحال کریں۔