پشاور ہائی کورٹ نے ضلع خیبر میں سرکاری محکموں کے لیے مختص زمین سے متعلق کیس میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے تمام ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ کیس کی سماعت جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس فضل سبحان پر مشتمل بینچ نے کی۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس سید ارشد علی نے زمین کی نوعیت سے متعلق استفسار کیا کہ یہ زمین کس مقصد کے لیے لی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ یہ اراضی 500 کنال پر مشتمل ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس زمین میں سے 300 کنال ریسکیو کے لیے مختص کی گئی ہے، 12 کنال سی ٹی ڈی کے لیے مختص ہے جبکہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹرز کمپلیکس اور بائی پاس روڈ بھی اسی زمین پر تعمیر کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمین سیکشن فور کے تحت ایکوائر کی گئی تھی، تاہم عدالتی احکامات کی وجہ سے اس پر کام روک دیا گیا ہے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ یہ زمین 500 کنال پر مشتمل ہے اور یہاں 15 ہزار افراد آباد ہیں، مگر زمین کے بدلے معاوضہ صرف چند منظور نظر افراد کو دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت نے ویمن یونیورسٹی کے ملازمین کی مستقلی کی درخواست مسترد کردی
اس اعتراض پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس معاملے میں باقاعدہ کارروائی کی گئی ہے اور متاثرہ افراد کو رقم بھی فراہم کی جا چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے سے متعلق کیسز سول اور ریفری کورٹ جج کے پاس زیر التوا ہیں، اس لیے پشاور ہائی کورٹ میں اس معاملے پر سماعت نہیں بنتی۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر اس معاملے کو تفصیل سے سننے کا فیصلہ کیا۔