پشاور: خیبرپختونخوا حکومت بیوروکریسی کو انٹی کرپشن کے نئے قانون پر اعتماد میں لینے اور ان کے تحفظات دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران نے مجوزہ قانون پر شدید اعتراضات اٹھائے ہیں، جس کے باعث تین ماہ گزرنے کے باوجود انٹی کرپشن ٹاسک فورس کا مسودہ کابینہ کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکا۔
ذرائع کے مطابق یہ مسودہ دسمبر 2024 کے اوائل میں کابینہ میں پیش کیا جانا تھا، مگر افسران کے اعتراضات کے سبب تاحال منظوری نہیں مل سکی۔
مجوزہ قانون کے مطابق، انٹی کرپشن کو اختیار ہوگا کہ وہ گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران کے خلاف چیف سیکرٹری کی اجازت کے بغیر کارروائی کر سکے۔ اسی نکتے پر بیوروکریسی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
حکومت نے ویسٹ پاکستان انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس 1961 میں ترامیم کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت انٹی کرپشن فورس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
نئے قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے کے دوران انٹی کرپشن کسی بھی وقت ریکارڈ طلب کر سکتی ہے اور اخراجات کا جائزہ لے سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ قانون میں انٹی کرپشن کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت تمام پارلیمنٹیرینز، وزراء اور عام افراد کے احتساب کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کے پی پولیس کی بہادری پر تنقید کرنا میں بالکل برداشت نہیں کروں گا: وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
خیبرپختونخوا میں اس وقت انٹی کرپشن کے 397 ملازمین ہیں، جن میں سے زیادہ تر پولیس اور پراسیکیوشن سے لیے گئے ہیں، جبکہ ادارے کے اپنے ملازمین کی تعداد نہایت کم ہے۔
وزیر قانون آفتاب عالم نے “پختون ڈیجیٹل” سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ادارے کے 80 فیصد ملازمین میٹرک پاس ہیں، اور موجودہ انٹی کرپشن قانون میں وہ صلاحیت نہیں جو کرپشن کے خاتمے کے لیے درکار ہے۔
نئے قانون کے تحت انٹی کرپشن کا باقاعدہ ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے گا اور ایک علیحدہ سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا۔
وزیر قانون کے مطابق، اس قانون کو 8 ماہ کی محنت کے بعد تیار کیا گیا ہے اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔ تاہم، بیوروکریسی کے اعتراضات کے باعث ابھی تک اس کی منظوری کا معاملہ تعطل کا شکار ہے۔