کسی افغان باشندے کو زبردستی نہیں نکالیں گے، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور

اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ کسی افغان مہاجر کو زبردستی نہیں نکالے گا، صوبائی حکومت نے کیمپ قائم کر دیے ہیں اور جو رضاکارانہ طور پر واپس جانا چاہتے ہیں انہیں باعزت طریقے سے رخصت کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بغیر کسی جامع حکمت عملی کے افغان باشندوں کو پاکستان سے نکالنا ان کے ساتھ زیادتی ہے، اور یہ نہ ہماری پالیسی ہے، نہ روایت۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے ہمارا موقف دو ٹوک ہے، جو واپس جانا چاہتے ہیں انہیں خوش آمدید کہیں گے، لیکن زبردستی کا راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ہم نے پولیس اور سی ٹی ڈی کو 30 ارب روپے فراہم کیے ہیں اور ایک نیا صوبائی ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے جس کے مثبت نتائج جلد سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پروونشل ایکشن پلان ماضی کی غلطیوں کو مدنظر رکھ کر مؤثر انداز میں تشکیل دیا جا رہا ہے تاکہ عوام اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ماضی قریب میں پیش آنے والے چند واقعات میں خیبر پختونخوا کی عوام نے پولیس کے ساتھ کھڑی ہوئی اور شرپسند عناصر کا ملک کر مقابلہ کیا۔ ہم اپنے اداروں اور عوام کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔

اسلام آباد کی طرف مارچ کی دھمکی دیتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا کہنا تھاکہ این ایف سی ایوارڈ پر اپریل میں میٹنگ کا وعدہ کیا گیا تھا، صدرمملکت کو کورونا ہوا ہے، دعا ہے صحتیاب ہوں اور این ایف سی میٹنگ بلائیں، این ایف سی ایوارڈ پرعمل نہ ہوا توپولیس سمیت تمام اداروں کے ساتھ اسلام آباد آئیں گے، ہمیں لاوارث نہ سمجھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 75 ارب روپے جو کہ معمول کے مطابق آنے تھے وہ بھی نہ دیے۔

ان کا مزید کہنا تھاکہ کُرم میں مسئلہ ہوا جس کیلئے سب کچھ صوبائی حکومت کررہی ہے، صوبائی حکومت احسان نہیں کررہی لیکن وفاق کی غیرسنجیدگی بھی واضح ہے، کُرم پاراچنار کے مسئلے کا میں نے حل نکالا ہے، وہاں سڑکیں بن رہی ہیں۔

علی امین گنڈاپور نے کہاکہ کُرم میں اسسٹنٹ کمشنر فرنٹ لائن پر زخمی ہوا، کُرم کے راستے میں کیمرے لگ رہے ہیں اور مکمل امن ہوگا، کُرم میں میرا ہیلی کاپٹر چنگچی رکشے کی طرح چل رہا ہے، کرم کیلئے مجھے نہ وفاق نے سی 130 دیا نہ ہیلی کاپٹر دیا۔

انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت کے ذمے خیبر پختونخوا کے 2020 ارب روپے واجب الادا ہیں، جبکہ ماضی میں 1680 ارب روپے کا حصہ پرویز خٹک کی ڈیل کے بعد صرف 80 ارب روپے کر دیا گیا تھا۔ اب اگر یہ رقوم ادا نہ کی گئیں تو یہ معاملہ سی سی آئی میں اٹھایا جائے گا اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا، اس خطے میں امن ممکن نہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے خلاف جنگ میں باضابطہ طور پر حصہ لیا، جس کے اثرات اب ہم بھگت رہے ہیں۔ اب اگر انہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں تو ان سے طاقت سے نہیں بلکہ اعتماد اور دل جیتنے کے ذریعے نمٹا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ٹی او آرز تیار کیے ہیں، لیکن تین ماہ گزرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا۔ وفاقی حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور سیاست کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد میں فیصلے کرنے چاہئیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیراعلیٰ انہیں ہفتہ وار ملاقات کا آئینی اختیار ہے اور عدالت کا آرڈر بھی موجود ہے، اس کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہونے دی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا لیکن کوئی بھی ڈیل نہیں کرے گا کیونکہ ڈیل ذاتی مفادات کے لیے ہوتی ہے، مذاکرات ملک کے لیے کیے جا سکتے ہیں۔

Scroll to Top