اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے جیو نیوز کے پروگرام ’’کیپیٹل ٹاک‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت نے خیبر پختونخوا سے دوسرے صوبوں کے راستے بند کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، اور اس قسم کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے الائنس کے ساتھ مل کر جدوجہد کا اعلان کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی اس جدوجہد میں تحریک انصاف کا ساتھ دیں گے۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پارٹی نے کبھی سیکیورٹی فورسز پر تنقید نہیں کی، لیکن ہمارا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے اور ملک میں آئین و قانون کی بالادستی یقینی ہو۔
انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان بھی “ہارڈ اسٹیٹ” کے حامی ہیں تاہم ہارڈ اسٹیٹ سے مراد ایک ایسا پاکستان جہاں قانون سب کے لیے برابر ہو، امیر اور غریب کے لیے قانون کی الگ الگ تشریح نہ کی جائے۔
ڈیل سے متعلق خبروں کو مسترد کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ تحریک انصاف نے ہمیشہ ایسی خبروں کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی رہائی کے بدلے کسی بھی قسم کی ڈیل یا مذاکرات کی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی پارٹی اس حوالے سے کسی سے بات چیت کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی نے حکومت سے مذاکرات کیلئے مجھے کوئی ٹاسک نہیں دیا، بیرسٹر گوہر
عمران خان سے ملاقاتوں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے انکشاف کیا کہ ماضی میں عدالت میں سماعت کے موقع پر عمران خان سے ملاقات ہو جاتی تھی، لیکن رمضان کے بعد سے کیسز کی سماعت نہ ہونے کے باعث ملاقاتوں میں تعطل پیدا ہوا ہے، جس کے سبب پارٹی کے اندر بھی اختلافات نے جنم لیا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ اڈیالہ جیل کی انتظامیہ جان بوجھ کر عمران خان سے ملاقات کے لیے بھیجی گئی فہرست میں ردوبدل کرتی ہے، جس کا مقصد پارٹی رہنماؤں میں اختلافات پیدا کرنا ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اب پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو عمران خان سے ملاقات کے لیے ایک مشترکہ فہرست جیل حکام کو فراہم کرے گی تاکہ کسی قسم کی ابہام یا بدنظمی نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی احکامات کے باوجود عمران خان کی بہنوں کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔