سرحد چیمبر آف کامرس نے قبائلی اور نیم قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا و پاٹا) پر ٹیکسوں کے نفاذ میں جس طرح معاونت اور خاموش حمایت کا کردار ادا کیا ہے، وہ نہایت افسوسناک، غیر نمائندہ اور عوام دشمن اقدام ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ادارہ اب بزنس کمیونٹی کی ترجمانی کے بجائے حکومتی ایجنڈے کی تکمیل کا آلہ کار بن چکا ہے۔
پشاور ٹریڈرز چیمبر کے صدر غلام بلال جاوید، سینئر نائب صدر غلام حسین چاند، نائب صدر عبدالحسیب چغتائی، ترجمان باسط خان اور دیگر عہدیداروں نے ایک مشترکہ بیان میں سرحد چیمبر کے کردار کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جن علاقوں کو آئینی طور پر ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، وہاں پر ٹیکسوں کا نفاذ سراسر ظلم، ناانصافی اور قومی وعدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا اور پاٹا کے عوام، جو پہلے ہی بدامنی، غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں، اب ان پر 10 فیصد سیلز ٹیکس جیسا بوجھ ڈالنا ان کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ حیرت انگیز طور پر سرحد چیمبر جیسے ادارے، جو درحقیقت تاجروں کی آواز ہونے چاہئیں، اس ظلم پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ اندرونی سطح پر اس کی حمایت بھی کی۔
صدر پشاور ٹریڈرز چیمبر غلام بلال جاوید نے واضح کیا کہ اگر حکومت نے فاٹا و پاٹا اور ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس نافذ کرنے کے فیصلے پر نظرثانی نہ کی، تو صوبہ بھر کی بزنس کمیونٹی شدید احتجاج پر مجبور ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے، ان میں کہیں بھی ٹیکس کے نفاذ کا ذکر نہ تھا وعدے ترقی، تعلیم، روزگار اور صحت کے تھے، نہ کہ استحصال، بوجھ اور ناانصافی کے۔
پشاور ٹریڈرز چیمبر اس ظالمانہ ٹیکس کو یکسر مسترد کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر اس غیر آئینی فیصلے کو واپس لے۔ ہم اپنے قبائلی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن جمہوری و قانونی راستہ اختیار کریں گے۔
قبائلی عوام کی یکجہتی ہمارا ہتھیار ہے، اور ہم کبھی ظلم کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے