بوسٹن: امریکا میں ایک وفاقی عدالت نے بدھ کے روز فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو دیے گئے تقریباً 2.2 ارب ڈالر کے ریسرچ فنڈز غیر قانونی طور پر منسوخ کیے۔
عدالت نے مزید حکم دیا کہ اب انتظامیہ اس ادارے کی تحقیقاتی گرانٹس روک نہیں سکے گی۔
یہ فیصلہ بوسٹن کی فیڈرل ڈسٹرکٹ جج ایلیسن بورووز نے دیا، جسے ہارورڈ کے لیے ایک بڑی قانونی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کی اس مہم کا مرکزی ہدف بن گئی تھی جس کے تحت وفاقی فنڈز کو استعمال کر کے امریکی جامعات میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی۔ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ یونیورسٹیاں یہودی مخالف اور بائیں بازو کی ’انتہا پسندانہ سوچ‘ کا گڑھ بن چکی ہیں۔
انتظامیہ نے یہ الزام عائد کرتے ہوئے ہارورڈ کے سیکڑوں تحقیقی فنڈز منسوخ کر دیے تھے کہ یونیورسٹی اپنے کیمپس میں یہودی طلبہ کو ہراساں کیے جانے کے مسئلے پر مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہی۔
ہارورڈ نے عدالت سے رجوع کیا اور مؤقف اپنایا کہ ٹرمپ انتظامیہ اس کے اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی آزادی کا تحفظ کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ اہم تحقیقی منصوبے غیر قانونی یا من مانے فیصلوں کی نذر نہ ہوں، چاہے اس سے حکومت کی ناراضی ہی کیوں نہ مول لینی پڑے۔
جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ ہارورڈ کی مزید گرانٹس منسوخ یا منجمد نہ کرے، زیر التوا ادائیگیوں کو روکنے یا مستقبل میں نئے فنڈز دینے سے انکار سے بھی باز رہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی ترجمان لز ہسٹن نے اس فیصلے کو ایک ’اوباما کے نامزد کردہ سرگرم جج‘ کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے اپیل کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہارورڈ کو ٹیکس دہندگان کے پیسوں پر کوئی آئینی حق حاصل نہیں اور وہ آئندہ گرانٹس کے لیے بھی اہل نہیں ہے۔