خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کی واپسی کیوں سست؟وجوہات سامنے آ گئیں

خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کی واپسی کیوں سست؟وجوہات سامنے آ گئیں

ملک بھر میں افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل جاری ہے، تاہم خیبرپختونخوا سے رضاکارانہ واپسی کی رفتار دیگر صوبوں کے مقابلے میں خاصی سست ہے۔ متاثرہ افغان شہری موجودہ حالات میں واپسی کو غیرمحفوظ اور غیرموزوں قرار دے رہے ہیں۔

کابل سے تعلق رکھنے والی گل بیگم، جو اپنی دو بیٹیوں اور بیٹے کے ساتھ پشاور میں مقیم ہیں، کہتی ہیں کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں ہیں اور اگر وہ اس وقت واپس چلی گئیں تو ان کی بیٹیوں کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔

صوبائی حکومت اور پولیس حکام واپسی کے لیے شعور اجاگر کرنے میں مصروف ہیں، تاہم کوئی سخت کریک ڈاؤن فی الحال نہیں ہو رہا۔ خیبرپختونخوا حکومت کا مؤقف ہے کہ افغان شہریوں کو واپسی کے لیے مزید وقت دیا جائے تاکہ انخلا باعزت اور رضاکارانہ طریقے سے ہو۔

ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (UNHCR) نے بھی افغان خواتین اور بچوں کی واپسی پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حکومت پاکستان سے واپسی کے عمل کو محفوظ، منظم اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے مطابق بنانے کی اپیل کی ہے۔

محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا کے مطابق ستمبر 2023 سے اب تک 6 لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے، تاہم پشاور جیسے علاقوں میں افغان مہاجرین کی موجودگی اب بھی بڑی تعداد میں برقرار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کے لیے ایک ہمدردانہ ماحول موجود ہے، جس کی وجہ سے واپسی کی رفتار نسبتاً سست ہے، تاہم جیسے جیسے حکومتی دباؤ بڑھے گا، اس عمل میں تیزی آنے کا امکان ہے۔

Scroll to Top