ایمل ولی خان پر طلال چوہدری کی تنقید، میاں افتخارحسین کا ردعمل سامنے آگیا

پشاور:عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر میاں افتخار حسین نے وفاقی وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے بیان کو سخت ترین الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایمل ولی خان کی سینیٹ تقریر نہ ذاتی تھی اور نہ ہی محض جماعتی، بلکہ یہ پاکستان کے عوام، چھوٹے صوبوں اور محروم طبقات کے آئینی حقوق کے لیے ایک جرات مندانہ اور پرخلوص آواز تھی۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومت نے اس تقریر کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے الزام تراشی اور غداری کے فتوے لگائے۔ یہ رویہ کسی جمہوری حکومت کا نہیں بلکہ آمرانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی رہنما عوامی حقوق کی بات کرتا ہے تو اس پر ملک دشمنی کے الزامات لگا کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

میاں افتخار حسین نے کہا کہ ایمل ولی خان نے سینیٹ میں جو سوالات اٹھائے وہ ہر باشعور شخص کے دل کی آواز ہیں: چھوٹے صوبوں کو ان کا آئینی اور مالی حق کیوں نہیں دیا جا رہا؟ این ایف سی ایوارڈ کب ہوگا؟ خیبر پختونخوا کو بجلی کے خالص منافع سے کیوں محروم رکھا گیا؟ غیر آئینی ادارہ SIFC کو کس اختیار سے پارلیمان پر مسلط کیا گیا؟

انہوں نے کہا کہ یہ سوالات نہ غداری ہیں اور نہ ملک دشمنی، بلکہ اصل حب الوطنی ہیں۔

ٓانہوں نے مذیدکہا کہ ہمارا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ ہم آئین اور جمہوریت کے دفاع کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ ہمارا کام آئین کی بالادستی اور ملک کی بقا کی جنگ ہے۔ ہم اپنے صوبے کے حقوق مانگتے ہیں اور یہ سب کچھ آئین کے مطابق ہے۔

میاں افتخار حسین نے کہا کہ طلال چوہدری جیسے لوگ ہمیں غدار کہنے سے پہلے اپنی حیثیت دیکھیں۔ یہی لوگ کل تک “ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ لگاتے تھے اور آج “بوٹ کو عزت دو” کے ترانے گا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی سیاست خفیہ اشاروں اور درباری رویوں پر کھڑی ہے۔ ایسے افراد کو ایمل ولی خان جیسے نظریاتی اور عوامی رہنما پر انگلی اٹھانے سے پہلے سیاست، آئین اور غیرت کا مطلب سمجھنا چاہیے۔ عوام بخوبی جانتی ہے کہ سیٹیں ووٹ سے نہیں بلکہ اشاروں پر جتوائی جاتی ہیں، اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ اشارے کہاں سے آتے ہیں۔

میاں افتخار حسین نے واضح کیا کہ عوامی نیشنل پارٹی کسی دھمکی، الزام یا پروپیگنڈے سے خوفزدہ نہیں ہوگی۔ ہم نے ہمیشہ آئین، جمہوریت، صوبائی خودمختاری اور عوامی حقوق کی بات کی ہے اور کرتے رہیں گے۔ ہم پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ اس کے اصل، آئینی اور اجتماعی مفاد کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں غدار کہا جاتا ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ ایسے القابات ہمیشہ سچ بولنے والوں کے لیے استعمال کیے گئے۔

Scroll to Top