دھماکے کے بعد سخت موقف، وزیر داخلہ محسن نقوی نے افغانستان کو ثبوت فراہم کیے، ملوث عناصر کو بے نقاب کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ جی الیون کچہری کے باہر ہونے والے خودکش حملے کے بعد پاکستان نے افغانستان کو واضح و مؤقف شواہد فراہم کر دیے ہیں اور اگر افغان حدود سے دہشت گرد عناصر کو روکا نہ گیا تو پاکستان خود اُن کے خلاف بندوبست کرے گا۔
پولیس اور حکام کے مطابق پیر کی دوپہر 12:39 بجے جی الیون کچہری کے باہر زوردار خودکش دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 12 افراد شہید اور 27 زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر قریبی ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا جہاں وزیراعظم نے زخمیوں کے فوری اور بہترین علاج کی ہدایت جاری کی ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں وزیر داخلہ نے کہا کہ ابتدائی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ کرنے والے کو پہلے کچہری کے اندر جانے کا منصوبہ تھا تاہم موقع نہ ملنے پر اس نے پولیس گاڑی پر حملہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خودکش حملہ آور کی شناخت اولین ترجیح ہے اور اس واقعے میں ملوث تمام کرداروں کو بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
محسن نقوی نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے افغانستان کو ثبوت فراہم کیے ہیں جن میں واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ کیسے دہشت گرد وہاں تربیت پا رہے ہیں اور پھر سرحد پار حملے کروائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے پاس اندازہ ہے کہ افغانستان کیا کر رہا ہے۔ اگر افغانستان اپنی سرزمین پر سرگرم شرپسند عناصر کو نہیں روکتا تو پاکستان کے پاس انہیں بندوبست کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔‘‘
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ کل وانا میں بھی گاڑی سوار خود کش حملہ آور کے دھماکے اور متعلقہ علاقے کی کلیئرنس کے معاملات زیرِ غور ہیں اور وانا واقعے کے سلسلے میں بھی کابل سے روابط اور شواہد سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچہری حملے کے تمام پہلوؤں کی جامع تفتیش کی جا رہی ہے اور پشت پناہی کرنے والے حلقوں تک تحقیقات کو پہنچایا جائے گا۔
پولیس اور ریسکیو اداروں نے واقعے کے فوراً بعد علاقے کو سیل کر دیا، موقع پر شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور جائے وقوع سے شواہد کے تجزیے کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ شہر بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے اور عوام سے التجا کی گئی ہے کہ وہ قریبی علاقے میں جانے سے پرہیز کریں تاکہ ریسکیو اور تفتیشی کارروائی میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
حالیہ دنوں میں وانا اور اسلام آباد کے واقعات کے بعد حکام کا کہنا ہے کہ داخلی سلامتی کو لاحق خطرات سنگین ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے موثر بین الاقوامی اور علاقائی تعاون کے ساتھ ساتھ اندرونی سیکیورٹی اقدامات کو بھی تیز کیا جائے گا۔ حکام نے کہا ہے کہ حملے کی نوعیت، منصوبہ بندی اور ممکنہ خارجی حمایت کے بارے میں مزید تفصیلات تفتیش مکمل ہونے کے بعد جاری کی جائیں گی۔





