پشاور۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے تعلیمی اداروں کو خود کفیل بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اب تک 55 کروڑ روپے کے وظائف طلباء کو دے چکی ہے اور اس میں مزید اضافے کا بھی ارادہ رکھتی ہے تاکہ خصوصاً طالبات کو مفت تعلیم فراہم کی جا سکے۔
وہ پشاور یونیورسٹی کے کانوکیشن ہال میں منعقدہ پشاور انجینئرنگ یونیورسٹی کے سالانہ کانوکیشن سے خطاب کر رہے تھے۔
تقریب میں تعلیمی سال 2023-24میں فارغ اتحصیل 550طلباء و طالبات کو بی ایس سی، ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی انجینئرنگ، نان انجینئرنگ کی ڈگریاں دی گئیں۔
تقریب کے مہمان خصوصی چانسلر وزیر اعلیٰ پختونخواعلی آمین گنڈاپور تھے جنہوں نے طلباء طالبات میں ڈگریاں اورگولڈ میڈلز تقسیم کئے۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا جناب امین علی گنڈا پور نے کامیاب فارغ التحصیل طلباء و طالبات کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجیز پر مشتمل نئے پروگرامز جیسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹکس اور سائبر سیکیورٹی کو اپنے نصاب میں شامل کرنے پر یو ای ٹی پشاور کو سراہا۔
انہوں نے اس موقع پر یونیورسٹیوں کو درپیش چیلنجز، خصوصا پنشن کے مسائل کا ذکر کیا اور بتایا کہ حکومت نے پنشن واجبات کو 75 ارب روپے سے کم کر کے 25 ارب روپے کر دیا ہے اور سال کے آخر تک یہ مکمل طور پر کلیئر کر دیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا وعدہ ایفا نہ ہوسکا
انہوں نے گریجویٹس پر زور دیا کہ آپ صرف ملازمتوں کے حصول پر توجہ نہ دیں بلکہ ٹیکنالوجی پر مبنی کاروبار اور اسٹارٹ اپس کی طرف قدم بڑھائیں تاکہ روزگار کے مواقع آپ خود پیدا کرسکیں۔ پاکستان کی معیشت کا مستقبل تحقیق، جدت، اور مقامی حل پر مبنی اسٹارٹ اپس پر منحصر ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر قیصر علی وائس چانسلر یو ای ٹی پشاورنے اپنے خطاب میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم، ایچ ای سی اور دیگر معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے گریجویٹس اور ان کے والدین کو شاندار کامیابی پر مبارکباد دی اور بتایا 1952 میں یو ای ٹی پشاور کے قائم سے لیکر اب تک 25,800 گریجویٹس ملکی و بین الاقوامی سطح پر نمایاں پوزیشنز پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کسی بھی جامعہ کے لیے حکومتی مدد ناگزیر ہے، تاہم یو ای ٹی پشاور نے مالی استحکام کی جانب ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق نئے پروگرامز متعارف کرائے ہیں، توانائی کی بچت پر کام کیا ہے اور انسانی وسائل کو مؤثر طریقے سے بروئے کار لانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔