پشاور:خیبر پختونخوا کے مالی سال 2025-26 کا بجٹ وزیر قانون آفتاب عالم خان نے صوبائی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ بجٹ کا کل تخمینہ 2,119 ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 547 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ حکومت نے بجٹ کو 157 ارب روپے سرپلس رکھنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
آفتاب عالم خان نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کی غلط پالیسیوں نے صوبے کو شدید مالی بحران سے دوچار کیا۔ ان کے مطابق جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو صوبائی خزانے میں محض پندرہ دن کی تنخواہوں کے برابر رقم باقی تھی۔ تاہم حکومت نے مالی نظم و ضبط کی پالیسی اپنا کر نہ صرف اس بحران پر قابو پایا بلکہ گزشتہ سال کے مقررہ 100 ارب روپے کے سرپلس ہدف سے بھی آگے نکل گئی۔
وزیر قانون نے کہا کہ موجودہ بجٹ کو “تاریخی سرپلس بجٹ” قرار دیا جا سکتا ہے، جو گزشتہ کئی سالوں کے مجموعی سرپلس بجٹ سے زیادہ ہے۔ بجٹ میں تنخواہوں، پنشن اور دیگر لازمی اخراجات کے لیے 1,415 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بندوبستی اضلاع کے جاری اخراجات کے لیے 1,255 ارب روپے جبکہ قبائلی اضلاع کے لیے 160 ارب روپے کی تجویز دی گئی ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پینشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ کم از کم ماہانہ اجرت کو 36 ہزار روپے سے بڑھا کر 40 ہزار روپے کرنے کا اعلان بھی بجٹ کا حصہ ہے۔
ایگزیکٹو الاؤنس نہ لینے والے سرکاری ملازمین کے لیے ڈسپیرٹی الاؤنس 15 سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز شامل کی گئی ہے۔
صحت اور دیگر سماجی شعبوں میں اصلاحاتی اقدامات کے لیے 7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں صحت کے لیے 2.86 ارب روپے، معدنیات و صنعت کے لیے 700-700 ملین، لائیو اسٹاک کے لیے 620 ملین، جبکہ بلدیات اور سیاحت کے لیے 550-550 ملین روپے شامل ہیں۔
آفتاب عالم خان نے وفاق پر مالی وعدوں سے انحراف کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ این ایف سی کی مد میں 267 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے، جبکہ بجلی خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے 71 ارب اور آئل و گیس کی مد میں 58 ارب روپے واجب الادا ہیں۔
بجٹ دستاویزات میں صوبے کے لیے 177 ارب روپے کی غیر ملکی امداد اور گرانٹس کا تخمینہ بھی شامل ہے۔
نئے بجٹ میں ٹیکس اصلاحات کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ پراپرٹی الاٹمنٹ اور ٹرانسفر پر اسٹامپ ڈیوٹی کو 2 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کرنے، ہوٹل بیڈ ٹیکس کو 10 سے کم کر کے 7 فیصد کرنے اور 4.9 مرلہ رہائشی و کمرشل پراپرٹی پر ٹیکس میں چھوٹ دینے کی تجاویز دی گئی ہیں۔
36 ہزار روپے ماہانہ آمدن رکھنے والے افراد پر پروفیشنل ٹیکس ختم کرنے، جبکہ الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس کو مکمل طور پر معاف کرنے کی بھی تجویز سامنے آئی ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ صوبائی حکومت نے گزشتہ سال 49 ارب روپے کے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کی، جس میں 18 ارب روپے سود کی مد میں ادا کیے گئے۔ حکومت نے آئندہ کسی بھی نئے قرض کے حصول سے پہلے محکمہ خزانہ سے مشاورت کو لازم قرار دے دیا ہے تاکہ مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنایا جا سکے۔