گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں حکومت کی تبدیلی اس وقت ہی ممکن ہے جب اپوزیشن کے پاس درکار نمبرز پورے ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں تبدیلی نمبرز گیم سے جڑی ہوتی ہے، اور یہ اصول صرف کے پی ہی نہیں بلکہ تمام صوبوں پر لاگو ہوتا ہے۔
نجی ٹی وی چینل (اے آر وائی) سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر کنڈی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے طلب کی گئی اے پی سی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں کہ کوئی آل پارٹیز کانفرنس ہو رہی ہے، نہ ہی مجھے اس سلسلے میں کوئی دعوت موصول ہوئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ اے پی سی کتنی سنجیدہ ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔‘‘
صوبے کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا
فیصل کریم کنڈی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 2013 سے اب تک پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا کا جو حال کیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’صوبے کو دہشت گردوں کے حوالے کیا گیا، اور اب جب حالات بگڑ چکے ہیں توامن کے نام پر اے پی سی بلائی جا رہی ہے۔‘‘
’’مدینہ کی ریاست کہاں گئی؟‘‘
گورنر خیبرپختونخوا نے سوات کے المناک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’’16 افراد دریا میں ڈوب گئے، لیکن حکمران خاموش ہیں۔ کہاں گئی مدینہ کی ریاست؟ خیبرپختونخوا میں لوٹ مار، چوری اور کرپشن کا بازار گرم ہے، اور عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔‘‘
’’عمران خان کب کے مائنس ہو چکے‘‘
فیصل کریم کنڈی نے سابق وزیراعظم عمران خان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’عمران خان کب کے مائنس ہو چکے ہیں، اب ان کی بہن علیمہ خانم کو جا کر احساس ہوا کہ ان کا بھائی مائنس ہو چکا ہے۔‘‘
سینیٹ انتخابات اور سیاسی مشاورت
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف سے ان کی ملاقاتیں جاری ہیں اور سیاسی صورتحال پر مولانا فضل الرحمان، امیر مقام اور ڈاکٹر عباد سمیت دیگر رہنماؤں سے بات چیت ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی امید ہے، اور امکان ہے کہ وہ مل کر سینیٹ کا الیکشن لڑیں گی۔
’’کون سی حکومت سنجیدہ ہے؟‘‘
فیصل کریم کنڈی نے موجودہ سیاسی ماحول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی حکومت امن و امان کے قیام کے لیے سنجیدہ نظر آتی ہے اور سکیورٹی فورسز سے مدد طلب کی گئی ہے، سندھ میں بھی کچھ مسائل ہیں لیکن کئی اہم مسائل حل ہو چکے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کون سی حکومت مسائل کے حل میں واقعی سنجیدہ ہے۔