پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا۔
پشاور ہائیکورٹ میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور دیگر پی ٹی آئی ارکانِ اسمبلی کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر سماعت ہوئی جس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ان اراکین کو آزاد قرار دیے جانے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
سماعت جسٹس صاحبزادہ اسداللہ اور جسٹس فرح جمشید پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی، عدالت نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 21 جولائی تک ملتوی کر دی۔
درخواست گزار کے وکیل بشیر خان ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور دیگر اراکین صوبائی اسمبلی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے کسی اور سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی، لہٰذا الیکشن کمیشن کا انہیں آزاد حیثیت دینا غیر آئینی اور غیرقانونی ہے۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہیں بھی پی ٹی آئی کو غیرسیاسی جماعت قرار نہیں دیا، الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017 کی غلط تشریح کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد شمار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کسی جماعت کا انتخابی نشان نہ لینا اس کی تحلیل نہیں کہلاتی، قانون کے مطابق انتخابی نشان نہ لینے کے باوجود جماعت برقرار رہتی ہے۔
وکیل درخواستگزار نے مزید کہا کہ الیکشن رولز اور ایکٹ میں اگر کوئی تضاد ہو تو ایکٹ کو فوقیت دی جانی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق تحریری فیصلہ جاری
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت ہے مگر اسے مخصوص نشستوں میں نظر انداز کیا گیا جو کہ جمہوری اور آئینی تقاضوں کے منافی ہے۔
عدالت نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 21 جولائی تک ملتوی کر دی، اگلی سماعت میں الیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کا جواب داخل ہونے کی توقع ہے۔