الیکٹرک بائیکس کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ

پاکستان میں الیکٹرک بائیک سازی کی صنعت کو بڑا دھچکا لگنے والا ہے کیونکہ حکومت آٹو انڈسٹری کے لیے دی گئی ٹیکس مراعات کو ختم کرنے پر غور کر رہی ہے جن کی بدولت یہ شعبہ تیزی سے ترقی کی جانب گامزن تھا۔

“آٹو انڈسٹری ڈیولپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی (2021-26)” کے تحت حکومت نے بیٹری، موٹر، چارجر اور کنورٹر جیسے کلیدی پرزہ جات پر صرف 1 فیصد کسٹمز ڈیوٹی اور کم سیلز ٹیکس کا نفاذ کیا تھا۔ اس کا مقصد مقامی سطح پر ای بائیکس کی تیاری کو فروغ دینا اور عام صارف کے لیے ان کی قیمت کو قابلِ برداشت بنانا تھا۔

ان مراعات کے پیچھے حکومتی ویژن یہ تھا کہ 2030 تک ملک میں دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کا کم از کم 50 فیصد حصہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر مشتمل ہو، جبکہ 2040 تک یہ شرح 90 فیصد تک لے جائی جائے۔

تاہم، انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (EDB) کی جانب سے بجٹ میں ان ٹیکس مراعات کو برقرار رکھنے کی سفارش مسترد کر دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ای بائیک پرزہ جات پر کسٹمز ڈیوٹی 30 سے 35 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔ اس ممکنہ فیصلے سے نہ صرف پیداواری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوگا، بلکہ ای بائیکس کی قیمت بھی عام صارف کی پہنچ سے باہر ہو سکتی ہے۔

صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے موجودہ مراعات واپس لیں تو اس سے ای بائیک کا فروغ رک جائے گا، خاص طور پر وہ افراد جن کا تعلق کم آمدنی والے طبقے سے ہے یا جو روزمرہ سفر کے لیے ان بائیکس پر انحصار کرتے ہیں، بری طرح متاثر ہوں گے۔

یہ پیشرفت ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب حکومت کی نئی EV پالیسی (2025-30) کے تحت ای-رکشہ اور ای-بائیکس کے لیے 100 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

مگر اب سوال یہ ہے کہ آیا حکومت اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرے گی یا ای بائیک انقلاب واقعی سست روی کا شکار ہو جائے گا۔ فی الحال، اس صنعت کا مستقبل غیر یقینی نظر آ رہا ہے۔

Scroll to Top