اسلام آباد: (پختون ڈیجیٹل ) آئین پاکستان کے آرٹیکل 243 میں آرمڈ فورسز کا ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے، جو بنیادی طور پر روایتی جنگ کے لیے بنایا گیا تھا۔
تاہم بعض عناصر آرٹیکل 243 اور 27 ویں ترمیم کے حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں، جبکہ اصل حقائق سے آگاہی انتہائی ضروری ہے۔
اہم نکات:
1. جنگ کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر آئین اور قانون میں ترامیم کرنا پارلیمنٹ اور حکومت وقت کا اختیار ہے۔ منتخب حکومت ملکی سلامتی اور خودمختاری کے لیے قومی مفاد میں قانون سازی کر سکتی ہے۔
2. موجودہ دور میں جنگ کی نوعیت مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ اب جنگ صرف روایتی میدانِ جنگ تک محدود نہیں، بلکہ گوریلا جنگ، غیر روایتی جنگ، اطلاعاتی محاذ (Information Warfare) اور سائبر اسپیس کی لڑائی نے جنگ کو ایک نئی جہت دی ہے۔
3. دنیا میں طاقت کا توازن صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ معلومات، معیشت، ٹیکنالوجی اور ذہانت کے صحیح استعمال سے طے ہوتا ہے۔
4. جنگیں اب صرف زمینی سطح پر نہیں بلکہ فضائی، سمندری، سائبر، انفارمیشن اور مختلف ڈومینز میں بیک وقت لڑی جاتی ہیں، جس کے لیے آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے درمیان مکمل ہم آہنگی ناگزیر ہے۔
5. بدلتی جنگی صورتحال میں ایک مربوط کمانڈ سٹرکچر، بروقت فیصلہ سازی، منظم حکمت عملی اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : اپوزیشن نے 27 آئینی ترمیم کی مخالفت کا اعلان کر دیا
معرکہ حق میں بروقت فیصلہ سازی اور تینوں سروسز کی ہم آہنگی انتہائی اہم ہے۔ اسی تناظر میں آرٹیکل 243 میں ترامیم وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہیں۔
پاکستان مشرقی اور مغربی سطح پر مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، لہٰذا ایک منظم اور مربوط حکمت عملی ناگزیر ہے۔
ان تمام حقائق اور بدلتی جنگی صورتحال کے پیش نظر، آئین کے آرٹیکل 243 میں ترامیم مسلح افواج کو نئے دور کے کثیرالجہتی خطرات اور چیلنجز کے مطابق ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔





