مولانا فضل الرحمٰن بنگلا دیش کے دورے پر روانہ

مولانا فضل الرحمٰن بنگلا دیش کے دورے پر روانہ

مولانا فضل الرحمٰن بنگلا دیش کے دورے پر روانہ، عالمی تحفظ ختم نبوت کانفرنس میں مہمان خصوصی بنیں گے

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بنگلا دیش کے دورے کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔ ترجمان جے یو آئی کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن مختلف مذہبی، اصلاحی اور روحانی اجتماعات میں خطاب کریں گے اور مدارس کے سالانہ اجتماعات میں شرکت کریں گے۔

اسلم غوری نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن عالمی تحفظ ختم نبوت کانفرنس کے مہمان خصوصی بھی ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے اعزاز میں ڈھاکا، سلہٹ اور دیگر شہروں میں تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔

ان کے ہمراہ مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا اسعد محمود، مولانا سعید یوسف، مفتی ابرار احمد اور دیگر اہم رہنما بھی ہیں۔

یہ دورہ مذہبی اور تعلیمی حلقوں میں اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے اور اسے بین الاقوامی سطح پر مذہبی تعاون اور تبادلہ خیال کے مواقع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : 27 ویں آئینی ترمیم غیر ضروری، نومبر ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے، مولانا فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 وی آئینی ترمیم کو غیر ضروری قرار دے دیا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نومبر کا مہینہ ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے اور 27 ویں آئینی ترمیم لانے کی ضرورت نہیں تھی۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک کو ہنگاموں کے حوالے کیوں کیا جا رہا ہے اور اس قسم کی ترامیم کی کیا ضرورت ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں واضح طور پر صوبوں کے حصص بڑھانے کا حق دیا گیا ہے اور اگر آئینی ترمیم کے ذریعے انہیں کم کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے مذاکرات کے ذریعے 35 شقوں سے دستبرداری اختیار کی تھی لیکن اب سمجھا جا رہا ہے کہ تعداد پوری ہونے کے بعد آئینی ترمیم لے آنا مقبولیت کے لیے کیا جا رہا ہے جو پارلیمنٹ اور آئین دونوں کی غداری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے اس معاملے میں ووٹ نہیں دیا اور اگر 11 اراکین نے ووٹ دے دیا ہوتا تو پہلا ڈرافٹ پاس ہو چکا ہوتا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اصولوں پر سیاست کی گئی، مفاد پر نہیں اور ہر آئینی ترمیم کے پیچھے ایک سیاسی فلسفہ اور مقصد ہوتا ہے۔

انہوں نے 26 ویں ترمیم اور اس کے پس منظر کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 17 ویں اور 18 ویں ترمیم کے اثرات کو کم کرنے اور بہتری لانے کی کوشش کی گئی اور ہمیشہ آئین کی بالادستی اور قومی مفاد کو مقدم رکھا گیا۔

مولانا فضل الرحمان نے اپنے دور حکومت میں کیے گئے اقدامات کا بھی ذکر کیا جن میں خواتین کی یونیورسٹیوں کا قیام، یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانا، پرائمری طلبہ کو مفت کتابیں فراہم کرنا اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں عملی کام شامل ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ عوام کے فیصلوں کا احترام جمہوریت کی مضبوطی کی بنیاد ہے اور ہر حکومت کو اسی اصول کے تحت چلنا چاہیے۔

Scroll to Top