پشاور: خیبر پختونخوا کے تعلیمی بورڈ کے زیر انتظام پشاور، چارسدہ، چترال اپر، چترال لوئر، قبائلی ضلع مہمند اور ضلع خیبر میں جاری میٹرک کے امتحانات کے دوران شفافیت اور نقل کی روک تھام کے لیے انقلابی اقدامات کیے گئے ہیں۔
کمشنر پشاور ڈویژن اور چیئرمین پشاور تعلیمی بورڈ ریاض خان محسود کی زیر نگرانی 713 امتحانی مراکز میں تقریباً دو لاکھ طلبہ کو سہولت فراہم کی گئی اور امتحانات میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔
حالیہ میٹرک امتحانات میں جماعت نہم اور دہم کے 46 پیپرز کا انعقاد کیا گیا جن میں سائنس اور آرٹس کے پیپرز شامل تھے۔ امتحانات کے دوران 11 دنوں میں متعدد شکایات موصول ہوئیں جن میں سہولت کی کمی اور نقل کی روک تھام میں ناکامی کی اطلاعات ملیں۔ اس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے 54 سرکاری امتحانی عملے کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے۔ ان میں سے 37 افراد کو امتحانی ڈیوٹی سے فارغ کر دیا گیا اور انہیں تاحیات بلیک لسٹ کر کے کوئی ٹی اے ڈی اے نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
پشاور تعلیمی بورڈ نے نقل میں معاونت کرنے والے دو پرائیویٹ اسکولوں کا الحاق ختم کرنے کے لیے ان کا کیس گورننس بورڈ کو ارسال کر دیا۔ اس کے علاوہ، جعلی ڈیوٹی تقرر نامے بنانے والے 14 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اور وہ تاحال جیل میں ہیں۔ 4 افراد کو جعلی تقرر نامے بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ نقل میں معاونت کرنے والے 4 پرائیویٹ اسکولوں کے اہلکاروں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی۔
اس کے علاوہ، بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور کے ایک اہلکار کو بھی نوکری سے فارغ کیا گیا جو جعلی امتحانی ڈیوٹی تقرر ناموں کی فراہمی میں ملوث تھا۔
یہ بھی پڑھیں میٹرک امتحان: فرائض میں غفلت پر 42 اساتذہ امتحانی ڈیوٹی سے فارغ
کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کا کہنا تھا کہ 29 اپریل تک جاری رہنے والے میٹرک کے امتحان میں شفافیت کو مزید یقینی بنایا جائے گا اور نقل کی روک تھام کے لیے مزید سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں انتظامی افسران کو احکامات جاری کیے گئے ہیں اور وہ مختلف اوقات میں اچانک امتحانی مراکز کے دورے کریں گے۔
ریاض خان محسود نے کہا کہ مقابلے کا رجحان پیدا کرنے اور بہترین خدمات انجام دینے پر 7 اسکولوں کو انعامات دیے گئے، جبکہ امتحانی عملے کے 9 افراد کو چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کے ہاتھوں نقد انعامات اور تعریفی اسناد سے نوازا گیا۔ اس کی تشہیر سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے کی گئی۔