ٹی ٹی پی سربراہ نے غیر مسلم ممالک سے تعاون کو شریعت کے مطابق جائز قرار دیدیا

ایک ویڈیو پیغام میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے کہا ہے کہ غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ معاہدے کرنا اور ان سے امداد لینا نہ صرف اسلامی تعلیمات کے تحت جائز ہے بلکہ بعض اوقات ناگزیر بھی ہو جاتا ہے۔

اپنے مؤقف کو مذہبی تناظر میں پیش کرتے ہوئے مفتی نور ولی محسود کا کہنا تھا کہ “کفار” ریاستوں کے ساتھ اتحاد اور ان کی حمایت حاصل کرنا اس وقت جائز ہے جب ضرورت ہو۔ اُن کے مطابق ایسے غیر مسلم طاقتوں سے روابط رکھنا بعض اوقات لازم بھی ہو جاتا ہے۔یہ بیان مبصرین کی نظر میں گروہ کے بین الاقوامی روابط کا ایک غیر معمولی اعتراف ہے۔

ٹی ٹی پی سربراہ کے اس اعتراف نے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ماضی میں جاری کردہ اُن تحقیقی رپورٹس کی یاد تازہ کر دی ہے، جن میں مسلسل دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارت ٹی ٹی پی کو مالی، تکنیکی اور انٹیلی جنس معاونت فراہم کر رہا ہے۔

ان رپورٹس میں مزید الزام عائد کیا گیا تھا کہ بھارت افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں منظم کر رہا ہے اور ٹی ٹی پی اس کے لیے ایک مرکزی آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہے۔

پاکستان ان خدشات کو متعدد عالمی فورمز پر اٹھا چکا ہے، اور یہ مؤقف اختیار کرتا رہا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے ریاست دشمن شدت پسند گروپوں کی پشت پناہی کر کے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی رہنما کا تازہ بیان ان خدشات کی تصدیق کرتا نظر آتا ہے اور ممکنہ طور پر خطے میں انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر اثر ڈال سکتا ہے۔

مفتی نور ولی کے مذہبی دلائل کے باوجود، ممتاز دینی علماء نے اُن کے مؤقف کی سختی سے مذمت کی ہے۔ علماء کا کہنا ہے کہ اگرچہ غیر مسلموں سے معاہدے شریعت میں بعض اوقات جائز ہو سکتے ہیں، لیکن یہ اس وقت جائز ہوتے ہیں جب ان کا مقصد مسلمانوں کی جان، مال اور دین کی حفاظت ہو—نہ کہ مسلمانوں ہی کے خلاف جارحیت۔

ایک جید عالم دین کا کہنا تھاکہ اپنی ہی قوم کے خلاف جنگ کے لیے دشمن کفریہ طاقتوں سے اتحاد کرنا شریعت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایسے نظریات اسلام کی غلط تشریح اور انتہائی خطرناک ہیں۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سربراہ کا بیان اس بات کی کھلی عکاسی ہے کہ کس طرح شدت پسند گروہ مذہبی بیانیے کو غیر ملکی ایجنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

دفاعی تجریاروں کے مطابق یہ گروہ مذہب کے پردے میں چھپ کر بیرونی امداد سے کی جانے والی دہشت گردی کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مفتی نور ولی محسود کا بیان نہ صرف پاکستان کے دیرینہ مؤقف کی تائید کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ آخر کب تک دنیا انتہا پسند نظریات کو اسٹریٹیجک اتحادی بنانے کے لیے استعمال کیے جانے کو نظرانداز کرتی رہے گی؟

یہ اعتراف اس بات کی واضح یاد دہانی ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے گروہ محض اندرونی خطرہ نہیں بلکہ سرحد پار ایجنڈے کے تحت سرگرم عالمی سطح کے عناصر ہیں جو مذہب کا سہارا لے کر جغرافیائی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں بین الاقوامی اتفاق رائے اور مشترکہ کارروائی پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گئی ہے۔

Scroll to Top