پشاور(شاہدجان)خیبرپختونخوا خواتین کیلئے خطرناک اور غیر محفوظ صوبہ بن گیا، گزشتہ ایک سال کے دوران خواتین پر گھریلو تشدد،قتل اقدام قتل،غیرت کے نام پر قتل،تیزاب پھینکے،ہراسگی،جنسی ہراسگی اورریپ کے 2ہزار2 سو43 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے ایک بھی خاتون کوانصاف نہ مل سکا۔
پختوںخوا ڈیجیٹل کو ملنے والے دستاویزات کے مطابق سال 2024 جنوری سے دسمبر 2024 تک خواتین پر تشدد اور دیگر واقعات میں 4 ہزار 6 سو60 ملزمان کیخلاف مقدمات درج ہوئے۔
خواتین پر تشدد اور دیگر واقعات میں ملوث 3 ہزار 199 ملزمان کو گرفتار کیاگیا تاہم کمزور تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کیوجہ سے ایک بھی ملزم کو سزا نہیں ہوئی، گزشتہ سال خیبرپختونخوا میں گھریلوی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے 225 خواتین کو قتل کیاگیا جبکہ 178خواتین کو زبردستی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ سال 4 خواتین کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعات بھی رونما ہوئے۔
دستاویز کے مطابق گھریلو تشدد کے وقت 100 خواتین پر قتل کے حملے رپورٹ ہوئے،164 خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 102تشدد کے دیگر واقعات رپورٹ ہوئے۔
دستاویزات کے مطابق 126 خواتین کوتشدد کرکے قتل کیاگیا جبکہ 92 خواتین کو بری طرح مارا پیٹا گیا ،اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ ایک سال کے دوران تیزاب پھینکنے اور خواتین کو جلانے کے 6 واقعات رپورٹ ہوئے۔
دستاویزات کے مطابق 95 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیاگیا، 178 خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات رونما ہوئے،4 خواتین گینگ ریپ کا شکاربنی۔
خواتین کی اغوائیگی کے 62 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 673 خواتین کو زبردستی اغوا کیاگیا،،66 لڑکیاں غگ جیسے ناپسندیدہ عمل کا نشانہ بنیں اور 6 لڑکیوں کی زبردستی شادیاں کی گئیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق 4 ہزار 660 ملزمان کو ان واقعات میں چارج کیاگیا جن میں سے 3 ہزار 199 ملزمان کو گرفتار کیاگیا تاہم ان میں سے کسی کو بھی عدالتوں سے سزا نہیں دلوائی گئی۔
پولیس کا کہناہے کہ ان واقعات میں ملوث 364 ملزمان کیخلاف تفتیش جاری ہے جن میں سے 21 قتل کے ملزمان 16 اقدام قتل کے 38 جسمانی تشدد جبکہ خاتون کو جلانے کے الزام میں گرفتار ایک ملزم بھی شامل ہے،24 کیسز ایسے ہیں جن میں خواتین کے گھروالوں کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیاگیا ۔
خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کا دعوی ہے کہ خیبرپختوںخوا میں گزشتہ سال رونما ہونے والے واقعات کی تعداد رجسٹرڈ کیسز سے کہیں زیادہ ہے مگر معاشرے میں مرد کا غلبہ ہونے کیوجہ سے زیادہ کیسز رپورٹ نہیں ہوتے جبکہ رجسٹرڈ کیسز میں عدالتوں سے سزا نہ ہونے کیوجہ سے زیادہ تر خواتین اور ان کے خاندان بدنامی سے بچنے کیلئے اس قسم کے واقعات رپورٹ ہونے سے کتراتی ہیں۔