خیبر پختونخوا حکومت کے 33 ارب روپے مالیت کے مفت سولرائزیشن منصوبے میں سنگین بے ضابطگیوں اور شفافیت کے فقدان کا انکشاف ہوا ہے، جس نے نہ صرف منصوبے کی ساکھ پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل (جیو) کے مطابق، منصوبے میں پی سی ون کے برعکس متعدد اہم تبدیلیاں کی گئیں، جن میں مہنگے’’آل ان ون سولوشن‘‘ کی شمولیت سرفہرست ہے۔ حیران کن طور پر، فی سولر یونٹ کی قیمت تقریباً 2 لاکھ 4 ہزار روپے مقرر کی گئی، حالانکہ ماہرین کے مطابق اصل لاگت 1 لاکھ 40 ہزار روپے فی یونٹ سے زائد نہیں ہونی چاہیے تھی۔
منصوبے میں مبینہ طور پر شفافیت کے فقدان پر اُس وقت مزید سوالات اٹھے جب ایک اعلیٰ سرکاری انجینئر، جس نے آل ان ون سولوشن کی مخالفت کی تھی، کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ مزید برآں، خیبرپختونخوا پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی نے ٹینڈرنگ کے عمل کو ’’مس پروکیورمنٹ‘‘ قرار دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، منصوبے کو 20 پیکجز میں تقسیم کیا گیا، جن میں سے 18 پر صرف ایک ہی بولی موصول ہوئی اور اُسی کمپنی کو اہل قرار دیا گیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ بولی کے عمل میں مقابلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ حیران کن طور پر، ہزارہ ڈویژن میں دو پیکجز کے لیے سب سے کم بولی دینے والی کمپنی کو مسترد کر دیا گیا، حالانکہ اس کی قیمت دیگر کمپنیوں سے 7 فیصد کم تھی۔
سب سے اہم اور متنازع پہلو ’’آل ان ون یونٹ‘‘کی شمولیت ہے، جو ذرائع کے مطابق صرف ایک غیر ملکی کمپنی تیار کرتی ہے اور پاکستان میں اس کا صرف ایک ہی سپلائر ہے۔ بیشتر بولی دہندگان نے ایک ہی برانڈ اور ماڈل پیش کیا، جو مبینہ گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔
توانائی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے غیر شفاف فیصلے نہ صرف عوامی پیسوں کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں بلکہ حکومت کے اصلاحاتی دعووں پر بھی سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔
پی ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ اداروں سے اس بابت مؤقف لینے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم تاحال کوئی سرکاری وضاحت سامنے نہیں آئی۔