وفاقی حکومت کی جانب سے تیار کردہ آئینی ترمیم کے مسودے میں اہم تبدیلیوں کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں جن میں آرمی چیف کے لیے نیا عہدہ اور عدلیہ کے ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات شامل ہیں۔
مسودے کے مطابق آئینی ترمیم میں 48 آرٹیکلز میں مختلف ترامیم تجویز کی گئی ہیں، ان ترامیم کے تحت فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو سپریم کورٹ سے علیحدہ وفاقی آئینی عدالت کے طور پر کام کرے گی۔
وفاقی آئینی عدالت کا صدر مقام اسلام آباد ہوگا اور اس کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال مقرر کی گئی ہے، آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی اور اسے وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات سننے، آئینی تشریح کرنے اور بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات کا دائرہ اختیار حاصل ہوگا۔
آئین کے آرٹیکل 184 کو ختم کرنے اور آرٹیکل 175 میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی شق شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، سپریم کورٹ کی آئینی اختیارات محدود ہوں گی اور نئی عدالت کو منتقل کی جائیں گی۔
ججز کی تقرری کے لیے آرٹیکل 175A میں نیا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس میں جوڈیشل کمیشن میں دونوں عدالتوں کے چیف جسٹس شامل ہوں گے۔
وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے فیصلے ایک دوسرے پر لازم نہیں ہوں گے تاہم آرٹیکل 189 میں ترامیم کے مطابق آئینی عدالت کے فیصلے تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے، سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل نو کی جائے گی اور دونوں عدالتوں کے چیف جسٹس اس کے ارکان ہوں گے۔
آرمی چیف کے لیے بھی ایک نیا عہدہ تجویز کیا گیا ہے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے جبکہ آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا اضافی عہدہ دیا جائے گا، اس کے ساتھ فیلڈ مارشل کے عہدے کو قومی ہیرو کا درجہ اور تاحیات مراعات دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ وزیرِاعظم کو سات مشیروں کی تقرری کا اختیار حاصل ہوگا اور وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا، سپریم کورٹ یا آئینی عدالت میں تقرری سے انکار کرنے والے ججز کو ریٹائر تصور کیا جائے گا جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل کے نئے قواعد 60 دن میں بنانے کی شرط رکھی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 27 ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا
آرٹیکل 175B سے 175L تک نیا باب شامل کیا گیا ہے جس میں وفاقی آئینی عدالت کے اختیارات اور طریقہ کار کی تفصیل دی گئی ہے اور آئینی عدالت کا ایڈوائزری دائرہ کار بھی متعین کیا جائے گا۔
اگر یہ مسودہ منظور ہو گیا تو نہ صرف عدلیہ کے ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئیں گی بلکہ آرمی چیف کے کردار اور اختیارات میں بھی اضافہ ہوگا جو ملکی سیاسی اور آئینی منظرنامے میں اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔





