اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملے اور جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں قائم کیڈٹ کالج پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹ اجلاس کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دونوں واقعات کی تحقیقات مکمل کرچکے ہیں اور انکشاف ہوا ہے کہ ان حملوں میں ملوث عناصر افغانی تھے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ افغانستان سے ہم پر بمباری کریں اور ہم جا کر ان سے مذاکرات کی بات کریں، ایسا نہیں ہو سکتا۔
محسن نقوی نے اس موقع پر سری لنکا کی جرات مندی کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سری لنکن وزیرِ دفاع سے رابطہ کیا اور کھلاڑیوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے مکمل یقین دہانی کرائی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے 11 نومبر کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ وانا کیڈٹ کالج پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے، جب کہ کالج میں موجود تمام طلبہ اور عملہ محفوظ رہا۔
سینیٹ اجلاس سے خطاب میں محسن نقوی نے مزید کہا کہ پاکستان نے طالبان حکومت سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو ختم کیا جائے، تاہم اس پر کوئی مؤثر عمل نہیں ہو رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا ایک اہم مقصد پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کو جلد از جلد ان کے وطن واپس بھیجنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کیڈٹ کالج وانا حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، سکیورٹی ذرائع
سکیورٹی ذرائع کے مطابق وانا کیڈٹ کالج حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، تمام حملہ آور افغان شہری تھے۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق وانا کیڈٹ کالج پر حالیہ دہشتگرد حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اور حملہ کرنے والے تمام دہشتگرد افغان شہری تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ حملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا حتمی حکم خارجی نورولی محسود نے دیا، اور حملے کے دوران دہشتگرد افغانستان سے موصول ہدایات پر عمل پیرا رہے۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق، اس حملے کی منصوبہ بندی افغان خارجی زاہد نے کی اور خارجی نورولی محسود نے حملے کی ذمہ داری جیش الہند کے نام سے قبول کروائی تاکہ ٹی ٹی پی سے تعلقات پر دباؤ کم کیا جا سکے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ حملے کے دوران بنائی گئی ویڈیو میں خارجی بار بار جیش الہند کا نام لیتے ہوئے اُردو میں بات کرتے رہے۔





