پشاور ہائیکورٹ میں خیبرپختونخوا کے نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی حلف برداری میں تاخیر کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے 11 اکتوبر کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا استعفیٰ گورنر ہاؤس بھجوایا تھا لیکن گورنر نے 12 اکتوبر کو استعفے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ صوبے سے باہر ہیں اور 15 اکتوبر کو واپس آکر استعفیٰ کی تصدیق کریں گے۔
سلمان راجہ کے مطابق گورنر کو علم تھا کہ 13 اکتوبر کو نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہونا ہے، لیکن جان بوجھ کر معاملے کو تاخیر کا شکار بنایا گیا۔
انہوں نے کہاکہ گورنر نے منظوری نہیں دی، لیکن آئین میں ایسی منظوری کا ذکر بھی نہیں ہے، نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب مکمل ہو چکا ہے، اسمبلی نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے اور اب حلف کی راہ میں صرف گورنر کی غیر موجودگی حائل ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اسپیکر نے وزیراعلیٰ کے حلف کے لیے سمری گورنر کو ارسال کر دی ہے اور اس کی موجودگی کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔
سلمان راجہ کا کہنا تھا کہ گورنر کی عدم موجودگی میں آئین کے آرٹیکل 255 کے تحت چیف جسٹس کسی کو بھی نامزد کر سکتے ہیں جو حلف لے سکے، تاکہ صوبہ بغیر حکومت کے نہ رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ اس معاملے کو جوڈیشل کے بجائے ایڈمنسٹریٹو سائڈ پر دیکھ رہے ہیں، کیونکہ یہ آئینی ذمہ داری ہے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللہ کو طلب کرتے ہوئے ان سے رائے طلب کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ اگر گورنر حلف لینے سے انکار کریں یا دستیاب نہ ہوں تو چیف جسٹس حلف لینے کے لیے کسی کو نامزد کر سکتے ہیں، تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ گورنر کو سمری موصول ہوئی یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ گورنر ہاؤس سے اس حوالے سے تصدیق کی جائے کہ آیا سمری وہاں پہنچی ہے یا نہیں۔
عدالت نے مزید کارروائی کل تک ملتوی کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ گورنر سے رابطہ کر کے ان کی رائے سے عدالت کو آگاہ کریں۔
سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس وقت صوبہ بغیر حکومت کے ہے اور اگر گورنر دو دن بعد واپس آتے ہیں تو اتنا وقت ضائع کرنا آئینی اور انتظامی لحاظ سے درست نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وزیراعلیٰ کا دفتر آئینی حیثیت رکھتا ہے جسے بغیر قیادت کے نہیں چھوڑا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس معاملے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور اگر آئینی تقاضے پورے ہوتے ہیں تو مناسب حکم جاری کیا جا سکتا ہے۔





