پاکستان کے پہلے وزیراعظم تحریکِ پاکستان کے سینئر رہنما اور بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بااعتماد ساتھی نوابزادہ لیاقت علی خان کی 74ویں برسی آج ملک بھر میں عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد جس شخصیت نے ریاستی نظم و نسق سنبھالا اور ابتدائی بحرانوں میں ملک کو ایک راہ دکھائی، وہ یہی نابغۂ روزگار رہنما تھے، جنہیں قوم شہیدِ ملت کے لقب سے یاد کرتی ہے۔
لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1896 کو متحدہ ہندوستان کے ضلع کرنال (مشرقی پنجاب) میں ایک معزز نواب خاندان میں پیدا ہوئے۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کا رخ کیا، جہاں سے تعلیم مکمل کر کے 1923 میں وطن واپس آئے۔
واپسی پر انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1936 میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ یہی وہ دور تھا جب وہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے نہایت قریب آ گئے اور تحریکِ آزادی کی ہر صف میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد انہیں ملک کا پہلا وزیراعظم بنایا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ درخشاں باب 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسے کے دوران اس وقت بند ہو گیا، جب ایک قاتل نے ان پر اندھا دھند گولیاں برسائیں۔ ان کے لبوں سے نکلنے والے آخری الفاظ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو چکے ہیں:
یہ بھی پڑھیں : پاک بھارت جنگ میں7 طیارےگرائے گئے تھے، ٹرمپ نے پھر مودی سرکار کو آئینہ دکھا دیا
ان کے قاتل کو موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، تاہم آج تک اس سازش کے محرکات سامنے نہیں آ سکے۔
لیاقت علی خان نہ صرف قومی سالمیت کے علمبردار تھے بلکہ وہ آئین سازی، اقتصادی منصوبہ بندی اور خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے۔
ان کی سیاسی بصیرت، اصول پسندی اور قائدانہ صلاحیتوں کے باعث ہی انہیں قائد ملت کا لقب دیا گیا۔
آج وہ کراچی میں مزارِ قائد کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں لیکن ان کی خدمات، قربانی اور جدوجہد کا اجالا آج بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کو روشن کرتا ہے۔





