ساجد ٹکر
پشاور: آج (اٹھارہ فروری) پشتو لیجنڈ شاعر امیر حمزہ خان شنواری کی 31 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے
حمزہ خان شنواری 1907 ء میں لنڈی کوتل میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 25 ہزار سے زائد نظمیں لکھیں جس کی وجہ سے انہیں پشتو ادب میں ایک قابل احترام مقام حاصل ہوا۔
حمزہ شنواری نے آل انڈیا ریڈیو پشاور کے لیے پہلا پشتو ڈراما ‘زمیندار’ لکھا، اس کے بعد 1941ء میں ریلیز ہونے والی پہلی پشتو فلم ‘لیلیٰ مجنوں’ کی کہانی، مکالمے اور گیت لکھے۔
محبت، فطرت اور انسانی جذبات کے موضوعات سے مالا مال ان کے کام نسلوں سے آگے نکل گئے ہیں، جس نے انہیں پشتون برادری کے لئے ایک ثقافتی آئیکون بنا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور کی ارباب اسد مارکیٹ، جہاں پرانے فرنیچر کو نئی زندگی دی جاتی ہے
امیر حمزہ شنواری نے اپنے کیریئر میں انگریزی اخبار خیبر میل کے پشتو سیکشن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
اس حیثیت سے انہوں نے ذاڑہ فکرونہ کے عنوان سے کالم لکھے، جس میں مختلف سماجی اور ادبی مسائل کو اجاگر کیا گیا۔
ادب کے شعبے میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں پرائڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔
حمزہ بابا کا ایک مشہور شعر یہ بھی ہے کہ
وايي اغیار چې د دوزخ ژبه ده
زه به جنت ته د پښتو سره ځم
ترجمہ:
دشمن کہتے ہیں کہ یہ جہنم کی زبان ہے
لیکن میں پختو کے ساتھ جنت میں جاؤں گا