تیمور خان
خیبر پختونخوا حکومت نے قانون سازی کے تین دن بعد ہی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہید بینظیر بھٹو وویمن یونیورسٹی میں پرو وائس چانسلر کی سیٹ پر پروفیسر کی عدم موجودگی میں سنیئر ایسوسی ایٹ پروفیسرز کو نظر انداز کر کے ایک جونیئر ایسوسی پروفیسر کو تعینات کر دیا۔
قانون کے مطابق یہ تعیناتی تین سال کے لیے ہوتی ہے لیکن اس کیس میں تعیناتی دو سال کے لیے کی گئی ہے۔ نئے قانون کے مطابق پرو وائس چانسلر کی پوسٹ پر ایسوسی ایٹ کی تعیناتی کی ہی نہیں جا سکتی۔
صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا یونیورسٹیز (ترمیمی) ایکٹ 2024 کا گزٹڈ اعلامیہ 21 جنوری 2025 کو جاری کیا۔ ترمیمی ایکٹ کی شق 7 میں سابقہ ایکٹ کی شق 12 اے میں ترامیم کی گئی جو پرو وائس چانسلر کی مدت تین سال کرنے اور تین سنیئر پروفیسرز میں سے کسی ایک کو مقرر کرنے سے متعلق ہے۔قانون کے مطابق اگر کسی پروفیسر نے ڈین کے طور پر کام کیا ہے تو وہ پرو وائس چانسلر کی سیٹ کے لیے اہل ہو گا۔ اگر یونیورسٹی میں پروفیسرز کی تعداد تین سے کم ہے تو پھر موجودہ پروفیسرز میں سے کسی ایک کی تقرری ہو سکتی ہے۔
لیکن بینظیر بھٹو وویمن یونیورسٹی میں اس وقت ایک بھی پروفیسر نہیں ہے اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز میں سب سے سنیئر شعبہ اسلامیات کی ڈاکٹر نسیم اختر، دوسرے نمبر پر شعبہ اسلامیات کی ہی ڈاکٹر زینب امین اور تیسرے نمبر پر شعبہ بائیو انفارمیٹیکس کی ڈاکٹر فرحت امین ہیں۔لیکن صوبائی حکومت نے ترمیمی قانون کے گزٹڈ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے تین دن بعد 24 جنوری 2025 کو دو سال کے لیے ڈاکٹر فرحت امین کو پرو وائس چانسلر مقرر کردیا جبکہ ایکٹ میں تین سال کی مدت ہے۔دوسری جانب ایکٹ میں پروفیسر کے علاوہ ایسوسی ایٹ پروفیسر کا ذکر تک نہیں ہے اور پھر ایسوسی ایٹ پروفیسرز میں بھی تیسرے نمبر پر خاتون کو پرو وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا: 19 ہزار سے زائد والدین کا بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے انکار
نئے قانون کے مطابق جب ایک یونیورسٹی میں پرو وائس چانسلر نہیں ہے تو اس یونیورسٹی کی وائس چانسلر کی عدم موجودگی میں دوسری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو لُک آفٹر (نگرانی) چارج سونپا جائے گا۔ رابطہ کرنے پر صوبائی وزیر تعلیم برائے ہائیر ایجوکیشن مینا خان آفریدی نے کہا کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ہی پرو وائس چانسلر بن جائے بلکہ ان کا تو یہ کہنا تھا کہ گزٹڈ اعلامیہ 21 جنوری کو جاری ہی نہیں ہوا بلکہ وہ 21 جنوری کو تیار ہوا تھا تاہم موجود دستاویزات کے مطابق گزٹڈ اعلامیہ 21 جنوری کو ہی جاری ہوا ہے۔مینہ خان آفریدی نے آزاد ڈیجیٹل کو بتایا کہ مذکورہ ایسوسی ایٹ پروفیسر کا کیس پہلے سے زیر غور تھا جس کی چانسلر نے منظوری دی ہے۔ یاد رہے اسی ترمیمی ایکٹ کی بدولت وزیر اعلیٰ کو صوبے کی تمام یونیورسٹیز کا چانسلر بنا دیا گیا۔ اس سے پہلے یہ عہدہ گورنر کے پاس ہوتا تھا۔