پشاور: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ افغانستان دورے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا حکومت کی مذاکراتی پالیسی کو اپنایا ضرور، مگر اس میں سب سے اہم فریق کو نظرانداز کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے اور پاک افغان تعلقات میں سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر بھی یہی ہے، لیکن افسوس کہ مذاکرات میں ہمیں شریک نہیں کیا گیا۔ علی امین گنڈاپور نے واضح کیا کہ مذاکرات خوش آئند ہیں، لیکن سولو فلائٹ کسی کے حق میں نہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مذاکرات کے لیے ٹی آو آرز بھی بھیجے لیکن وفاق کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ’’ہم نے قومی سطح پر جرگے کی تشکیل کا فارمولا بھی تیار کیا، جس پر عمل ہونا چاہیے تھا‘‘۔
اسحاق ڈار کی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اسحاق ڈار نہ تیتر ہیں نہ بٹیر، وہ فارم 47 حکومت کے سلیکٹڈ نمائندے ہیں جو قومی یکجہتی کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔‘‘
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کی عوام نے مینڈیٹ پی ٹی آئی کو دیا ہے، جسے نظر انداز کرنا عوامی رائے کی توہین ہے۔
انہوں نے افغان مہاجرین کی واپسی پر بھی وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے لاکھوں افغانیوں کی سالوں تک مہمان نوازی کی ہے، لیکن اب انہیں غیر مہذب طریقے سے نکالا جا رہا ہے جو اشتعال کا باعث بن رہا ہے۔ ہمیں ان مہاجرین کو باعزت طریقے سے رخصت کرنا چاہیے۔‘‘
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ افغانستان جانے کے بعد وزیر خارجہ کو ’سانپ سونگھ چکا ہے‘ کیونکہ ابھی تک مذاکرات اور معاہدوں کی کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ انہوں نے ایک بار پھر زور دیا کہ آج بھی اگر ہمارے جرگے کو مان لیا جائے تو خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔