پشاور ہائی کورٹ نے ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ ملزمان کی جانب سے رہائی کے لیے دائر درخواستوں پر محفوظ شدہ فیصلہ جاری کرتے ہوئے ان کی درخواستیں خارج کر دیں۔
عدالت نے 8 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ میں قرار دیا کہ ملزمان کو آئین اور قانون کے مطابق آرمی ایکٹ جیسے خصوصی قانون کے تحت سزائیں دی گئیں، جو عام قوانین پر فوقیت رکھتا ہے۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سزا مکمل ہونے کے باوجود ملزمان کو جیل میں رکھا گیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 9، 13، 14 اور 25 کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان کو سزاؤں کا آغاز اس دن سے تصور ہوتا ہے جب کارروائی مکمل ہونے کے بعد فیصلے پر دستخط کیے جاتے ہیں۔
فیصلے کے مطابق عدالت نے اس نکتے کو تسلیم کیا کہ آرمی ایکٹ ایک سپیشل لا ہے جس کے تحت دی گئی سزاؤں پر عام قانون جیسے کہ تعزیرات پاکستان یا ضابطہ فوجداری کا اطلاق محدود ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے فراہم کردہ ریکارڈ کے مطابق ملزمان کو پہلے ہی تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 382 بی (382-B) کا فائدہ دیا جا چکا ہے جس میں سزا کے دوران جیل میں گزارا گیا وقت شامل کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں اربوں روپے کی مبینہ مالی بے ضابطگی، عوام کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا، ہمایون خان
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تمام قانونی نکات پر ملزمان کو ریلیف پہلے ہی دیا جا چکا ہے لہٰذا مزید کسی رعایت کا جواز نہیں بنتا اس بنیاد پر عدالت نے تمام درخواستیں خارج کر دیں۔





