پشاور ہائی کورٹ میں پیکا ایکٹ چیلنج

پشاور ہائی کورٹ میں الیکٹرانک جرائم (ترمیمی) ایکٹ کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔

یہ آئینی درخواست صحافی انیل مسیح کی جانب سے ایڈووکیٹ نعمان محب کاکاخیل کے ذریعے دائر کی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس قانون میں کی گئی ترامیم بنیادی انسانی حقوق، آزادی اظہار رائے، پرائیویسی اور قانونی عمل کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم نہ صرف پاکستان کے آئین بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے بھی برخلاف ہیں۔

درخواست میں وزارت قانون و انصاف، وزارت داخلہ، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی اور وفاقی تحقیقاتی ادارے سمیت مختلف سرکاری اداروں کو فریق بنایا گیا ہے۔

اس ایکٹ کو عدالت میں اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا ہے کہ یہ اختلاف رائے کو جرم قرار دیتا ہے، ریگولیٹری اداروں کو غیر ضروری اختیارات فراہم کرتا ہے اور “جھوٹی اور گمراہ کن معلومات” کی روک تھام کے نام پر آزاد صحافت پر قدغن لگاتا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی، سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبیونلز اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی جیسے اداروں کا قیام حکومتی کنٹرول کو مزید مستحکم کرتا ہے اور عدالتی نگرانی کے مؤثر نظام کے بغیر ان اداروں کو غیر محدود اختیارات تفویض کرتا ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ یہ قانون اسلامی اصولوں کے بھی منافی ہے کیونکہ اسلام انصاف، مساوات اور آزادی اظہار کے اصولوں کو برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان کی بین الاقوامی معاہدوں بشمول یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس اور انٹرنیشنل کووننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کے تحت ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکٹرانک جرائم (ترمیمی) ایکٹ کو آئین کے خلاف قرار دیا جائے تاکہ ڈیجیٹل میڈیا کے کارکنان کے خلاف من مانی کارروائیوں کا سلسلہ روکا جا سکے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ جب تک عدالت اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیتی، سرکاری حکام کو اس قانون کے نفاذ سے روکا جائے اور اس کے تحت مقدمات کے اندراج پر عبوری پابندی عائد کی جائے۔

Scroll to Top