واشنگٹن :ٹرمپ انتظامیہ کے سخت گیر اقدامات کے تحت امریکا میں زیر تعلیم ڈیڑھ ہزار سے زائد غیر ملکی طلبہ و طالبات کے ویزے منسوخ یا ان کی قانونی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق امریکی امیگریشن حکام نے یہ اقدام ان طلبہ کے خلاف اٹھایا ہے جنہوں نے فلسطین کی حمایت میں مظاہروں میں شرکت کی یا سوشل میڈیا پر اظہارِ یکجہتی کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ویزہ منسوخی کی زد میں نہ صرف فلسطین کے حامی طلبہ آئے بلکہ وہ افراد بھی شامل ہیں جن کا بالواسطہ طور پر فلسطین سے رابطہ تھا یا جنہوں نے سوشل میڈیا پر غزہ کے حق میں آواز بلند کی۔
امریکی حکومت کا موقف ہے کہ متاثرہ طلبہ نے کیمپسز میں مبینہ طور پر یہود دشمنی اور حماس کی حمایت کی، تاہم طلبہ تنظیموں، وکلا اور سماجی کارکنوں نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مارچ میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے 300 طلبہ کے ویزے منسوخ کیے جانے کا عندیہ دیا تھا، تاہم اب تک 1489 طلبہ ویزے سے محروم ہو چکے ہیں۔ امریکی ہائیر ایجوکیشن جریدے “انسائیڈ ہائر ایڈ” کے مطابق یہ طلبہ امریکا کی 240 یونیورسٹیوں اور کالجز میں زیر تعلیم تھے جن میں ہارورڈ، اسٹینفورڈ، اوہائیو اسٹیٹ، میری لینڈ یونیورسٹی اور دیگر ادارے شامل ہیں۔
امیگریشن لائرز ایسوسی ایشن کے مطابق امریکی امیگریشن ڈیٹابیس SEVIS سے 4700 طلبہ کو حذف کیا جا چکا ہے، جو اس معاملے کی سنگینی اور دائرہ کار کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
دوسری جانب متاثرہ طلبہ کی جانب سے ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں بڑی تعداد میں یہودی کارکنان اور انسانی حقوق کے گروپس بھی شریک ہیں، جو ویزہ منسوخی کے فیصلے کو آزادی اظہار اور تعلیمی مواقع پر قدغن قرار دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں کینیڈا نے 13 خوش نصیب ممالک کو ویزا فری فہرست میں شامل کرلیا
وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم کارکنوں کو درآمد نہیں کر رہے، طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں، نہ کہ یونیورسٹیوں کو تباہ کرنے والی تحریکوں کی قیادت کرنے کے لیے۔