جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 وی آئینی ترمیم کو غیر ضروری قرار دے دیا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نومبر کا مہینہ ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے اور 27 ویں آئینی ترمیم لانے کی ضرورت نہیں تھی۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک کو ہنگاموں کے حوالے کیوں کیا جا رہا ہے اور اس قسم کی ترامیم کی کیا ضرورت ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں واضح طور پر صوبوں کے حصص بڑھانے کا حق دیا گیا ہے اور اگر آئینی ترمیم کے ذریعے انہیں کم کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے مذاکرات کے ذریعے 35 شقوں سے دستبرداری اختیار کی تھی لیکن اب سمجھا جا رہا ہے کہ تعداد پوری ہونے کے بعد آئینی ترمیم لے آنا مقبولیت کے لیے کیا جا رہا ہے جو پارلیمنٹ اور آئین دونوں کی غداری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے اس معاملے میں ووٹ نہیں دیا اور اگر 11 اراکین نے ووٹ دے دیا ہوتا تو پہلا ڈرافٹ پاس ہو چکا ہوتا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اصولوں پر سیاست کی گئی، مفاد پر نہیں اور ہر آئینی ترمیم کے پیچھے ایک سیاسی فلسفہ اور مقصد ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم، تحریک تحفظ آئین پاکستان کا کل سے ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان
انہوں نے 26 ویں ترمیم اور اس کے پس منظر کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 17 ویں اور 18 ویں ترمیم کے اثرات کو کم کرنے اور بہتری لانے کی کوشش کی گئی اور ہمیشہ آئین کی بالادستی اور قومی مفاد کو مقدم رکھا گیا۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنے دور حکومت میں کیے گئے اقدامات کا بھی ذکر کیا جن میں خواتین کی یونیورسٹیوں کا قیام، یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانا، پرائمری طلبہ کو مفت کتابیں فراہم کرنا اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں عملی کام شامل ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ عوام کے فیصلوں کا احترام جمہوریت کی مضبوطی کی بنیاد ہے اور ہر حکومت کو اسی اصول کے تحت چلنا چاہیے۔





